اپنا پجاری
دل
اکثر سوچا کرتا ہے ہر وقت اکیلا رہنے سے
اک
نام کی پوجا ٹھیک نہیں دھوکے پر دھوکا دیتی ہے
اک
نام کا منتر مورت کو مندر میں اجاگر کرتا ہے
مندر
سے باہر ہر مورت یوں اپنی جوت جگاتی ہے
جیسے
مندر کی مورت سے اس کا بندھن ہی پرانا ہے
دل
اکثر سوچا کرتا ہے کبھی بات بنی ہے کہنے سے
کبھی
آنکھ کا جال بھی لایا ہے پنچھی کو بس میں شکاری کے
اُسے
پاس کی جیت نہیں ملتی جو دور ہی دور سے مرتا ہے
جب
ہات بڑھے جب بات بنے ناکامی راہ سجھاتی ہے
اک
نام کی پوجا ٹھیک نہیں پر اس کو کس نے مانا ہے
دل
اکثر سوچا کرتا ہے کیا حاصل ہے دکھ سہنے سے
جیسے
پھلواری سینے میں سو رنگ کے پھول کھلاتی ہے
جیسے
بادل کے ٹکڑوں میں چھپ چھپ کے
چاند
چمکتا ہے
جیسے
ساگر کی لہروں پر اک کشتی بہتی جاتی ہے
اک
نام کی پوجا ویسے ہی اپنی پوجا کا بہانا ہے
No comments:
Post a Comment