شب
زخم سینہ اوپر چھڑکا تھا میں نمک کو
ناسور
تو کہاں تھا ظالم بڑا مزہ تھا
سر
مار کر ہوا تھا میں خاک اس گلی میں
سینے
پہ مجھ کو اس کا مذکور نقش پا تھا
سو
بخت تیرہ سے ہوں پامالی صبا میں
اس
دن کے واسطے میں کیا خاک میں ملا تھا
یہ
سرگذشت میری افسانہ جو ہوئی ہے
مذکور
اس کا اس کے کوچے میں جا بجا تھا
سن
کر کسی سے وہ بھی کہنے لگا تھا کچھ کچھ
بے
درد کتنے بولے ہاں اس کو کیا ہوا تھا
کہنے
لگا کہ جانے میری بلا عزیزاں
احوال
تھا کسی کا کچھ میں بھی سن لیا تھا
آنکھیں
مری کھلیں جب جی میرؔ کا گیا تب
دیکھے
سے اس کو ورنہ میرا بھی جی جلا تھا
No comments:
Post a Comment