سورہ
تکویر
قیام
قیامت اور حقانیت قرآن اس کے مرکزی مضامین ہیں۔ قیامت کے دن کی شدت اور ہولناکی
اورہر چیز پر اثر انداز ہوگی۔ سورج بے نور ہوجائے گا۔ ستارے دھندلاجائیں گے، پہاڑ
روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، پسندیدہ جانوروں کو نظر انداز کردیا جائے گا،
جنگی جانور جو علیحدہ علیحدہ رہنے کے عادی ہوتے ہیں یکجا جمع ہوجائیں گے۔ (پانی
اپنے اجزائے ترکیبی چھوڑ کر ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل ہوکر) سمندروں میں
آگ بھڑک اٹھے گی۔ انسان کا سارا کیا دھرا اس کے سامنے آجائے گا۔ پھر کائنات کی
قابل تعجب حقیقتوں کی قسم کھاکر بتایا کہ جس طرح یہ چیزیں ناقابل انکار حقائق ہیں
اسی طرح قرآنی حقیقت کو بھی تمہیں تسلیم کرلینا چاہئے۔ پھر قرآن کریم کے اللہ رب
العزت سے چل کر حضور علیہ السلام تک پہنچنے کے تمام مراحل انتہائی محفوظ اور قابل
اعتماد ہونے کو بیان کرکے واضح کردیا کہ یہ دنیا جہاں کے لئے بلا کسی تفریق و
امتیاز کے اپنے دامن میں نصیحت و ہدایت کا پیغام لئے ہوئے ہے۔
سورہ
انفطار
قیام
قیامت کے نتیجہ میں کائنات میں برپا ہونے والے انقلابی تغیرات کو بیان کرکے انسان
کی غفلت کا پردہ چاک کرتے ہوئے اسے محسن حقیقی کے احسانات یاد دلاکر اس کی ’’رگِ
انسانیت‘‘ کو پھڑکایا ہے۔ پھر معرکۂ خیر و شر کی دو مقابل
قوتوں کا تذکرہ کرکے بتایا ہے کہ شر کی قوت فجار اور نافرمانوں کے روپ میں جہنم کا
ایندھن بننے سے بچ نہیں سکیں گے جبکہ ہر چیز کی قوت ابرار و فرماں برداروں کی شکل
میںجنت اور اس کی نعمتوں کی مستحق قرار پائے گی۔ اللہ کے نگران فرشتے ’’کراماً
کاتبین‘‘ ان کے تمام اعمال کا ریکارڈ محفوظ کررہے ہیں اور
روز قیامت اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلے گا۔
No comments:
Post a Comment