سورۃ المجادلۃ
المجادلۃ کے
معنی ’’بحث و مباحثہ یا جھگڑا‘‘ کرنے کے ہیں،
اس سورہ کی ابتداء میں ایک خاتون کی گفتگو اور اس کے ضمن میں ظہار کا حکم بیان کیا
گیا ہے۔ اس لئے اس کا نام ’’المجادلۃ‘‘ رکھا گیا ہے۔
حضرت اوس بن صامت نے اپنی بیوی حضرت خولہ بنت ثعلبہ سے ظہار کرلیا تھا، ظہار کے
معنی اپنی بیوی کی پشت کو اپنی ماں کی پشت کے مشابہ قرار دینا ہے اور زمانہ جاہلیت
میں یہ لفظ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لئے (طلاق دینے کے لئے) استعمال ہوتا
تھا۔ خولہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہایت خوبصورت انداز میں اپنا معاملہ
پیش کرکے اس کا شرعی حکم معلوم کیا۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ! اوس نے مجھ سے ظہار
کرلیا ہے۔ یہ شخص میرا مال کھا گیا۔ میری جوانی اس نے تباہ کردی۔ میں نے اپنا پیٹ
اس کے آگے کھول کر رکھ دیا۔ جب میں بوڑھی ہوکر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہی تو
اس نے مجھ سے ظہار کرلیا۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اگر انہیں میں اپنے پاس رکھوں
تو بھوکے مرنے لگیں گے اور اگر اوس کے حوالہ کردوں تو بے توجہی کی وجہ سے ضائع
ہوجائیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ تم
اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہو۔ خولہ نے کہا، اس نے طلاق کا لفظ تو استعمال ہی نہیں
کیا تو میاں بیوی میں حرمت کیسے ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ اپنی بات دہراتی رہی اور حضور
صلی اللہ علیہ وسلم وہی جواب دیتے رہے۔ آخر میں کہنے لگیں: اے اللہ! میں اس مشکل
مسئلہ کا حکم آپ سے ہی مانگتی ہوں اور آپ کے سامنے شکایت پیش کرتی ہوں۔ حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کمرے کے ایک کونہ میں بیٹھی سن رہی تھی۔
اتنا قریب ہونے کے باوجود مجھے بعض باتیں سنائی نہیں دے رہی تھیں مگر اللہ نے
آسمانوں پر اس کی تمام باتیں سن کر مسئلہ کا حل نازل فرمادیا۔ اللہ نے اس کی بات
سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے جھگڑ رہی تھی۔ پھر ظہار کا حکم بیان کرنا
شروع کردیا۔ پہلے تو بیوی کو ماں کہنے کی مذمت فرمائی اور اسے جھوٹ اور گناہ کا
موجب فعل قرار دیا اور پھر بتایا کہ اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ ’’زوجیت‘‘ کے تعلقات باقی رکھنا چاہتا ہے تو ایک غلام آزاد
کرکے یا ساٹھ روزے رکھ کر یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاکر یہ مقصد حاصل کرسکتا ہے
ورنہ اس جملے سے طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ اس کے بعد دشمنانِ خدا و رسول کے لئے
ذلت آمیز عذاب کا تذکرہ اور اللہ کے علم و قدرت کو بیان کرنے کے لئے بتایا کہ
خفیہ گفتگو کرنے والے اگر تین ہوں تو چوتھے اللہ، پانچ ہوں تو چھٹے اللہ، کم ہوں
یا زیادہ اللہ ان کے ساتھ ضرور موجود ہوتے ہیں۔ یہودی اپنی سرگوشیوں سے مسلمانوں
کے لئے پریشانیاں اور مسائل پیدا کرتے تھے۔ اس لئے خفیہ میٹنگوں پر پابندی لگادی
گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے ہوئے شرارت کی نیت سے نامناسب الفاظ کے
استعمال کی بھی مذمت کی گئی۔ مجلس میں نئے آنے والوں کے لئے گنجائش پیدا کرنے اور
اختتامِ مجلس کے بعد بے مقصد گفتگو میں لگنے کی بجائے منتشر ہوجانے اور اپنے اپنے
کام میں مصروف ہوجانے کی تلقین فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی مجلس کے
لئے ادب بیان کیا کہ دربارِ رسالت میں حاضری سے پہلے صدقہ کرلیا کریں تاکہ ’’آدابِ رسالت‘‘ میں کسی کوتاہی کی صورت میں اللہ کی پکڑ سے بچ
سکیں۔ یہودیوں سے دوستیاں گانٹھنے والوں کے خبث باطن کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کی
مذمت بیان کی اور عذاب شدید کی وعید سنائی۔ اس کے بعد ’’حزب اللہ‘‘ اور ’’حزب الشیطان‘‘ کی تقسیم کرتے
ہوئے بتایا کہ اللہ کے ذکر سے غافل ہوکر شیطان کے زیراثر آنے والے شیطان کی جماعت
میں شامل ہیں۔ اللہ نے اپنے رسولوں اور اہل ایمان کو غالب کرنے کا فیصلہ کیا ہوا
ہے۔ مؤمن وہی ہیں جو رشتہ داری کی اسلامی بنیادوں کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ خونی، قومی
اور لسانی بنیادوں پر اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے تعلقات استوار نہیں کرتے۔
یہ لوگ اللہ کی تائید و نصرت اور جنت کے مستحق ہیں، یہی لوگ ’’حزب اللہ‘‘ میں شامل ہیں اور کامیابیاں اللہ کے لشکر کے قدم چوما
کرتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment