کس
قدر ظلم ڈھایا کرتے ہو
یہ جو تم بھول جایا کرتے ہو
یہ جو تم بھول جایا کرتے ہو
کس
کا اب ہاتھ رکھ کے سینے پر
دل کی دھڑکن سنایا کرتے ہو
دل کی دھڑکن سنایا کرتے ہو
ہم
جہاں چاۓ پینے جاتے تھے
کیا وہاں اب بھی آیا کرتے ہو
کیا وہاں اب بھی آیا کرتے ہو
کون
ہے اب کہ جس کے چہرے پر
اپنی پلکوں کا سایا کرتے ہو
اپنی پلکوں کا سایا کرتے ہو
کیوں
مرے دل میں رکھ نہیں دیتے
کس لیے غم اٹھایا کرتے ہو
کس لیے غم اٹھایا کرتے ہو
فون
پر گیت جو سناتے تھے
اب وہ کس کو سنایا کرتے ہو
اب وہ کس کو سنایا کرتے ہو
آخری
خط میں اس نے لکھا تھا
تم مجھے یاد آیا کرتے ہو
تم مجھے یاد آیا کرتے ہو
No comments:
Post a Comment