جگن ناتھ آزاد
(1918–2004)
جگن ناتھ آزاد 5 دسمبر، 1918ء کو عیسیٰ
خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان میں ہے۔ان کے والد تلوک چند محروم
اردو کے شاعر تھے۔ آزاد کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد کے ہاتھوں ہوئی۔
جگن ناتھ آزاد نے 1933ء میں میانوالی سے
میٹرک کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ 1935ء میں انہوں نے ڈی․اے․بی کالج راولپنڈی
سے انٹرمیڈیٹ کیا اور 1937ء میں گارڈن کالج راولپنڈی سے بی․اے کے امتحان میں کامیابی
حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جگن ناتھ آزاد نے لاہور کا رخ کیا۔
انہوں نے لاہور میں 1942ء میں فارسی آنرز کیا اور پھر 1944ء میں جامعہ پنجاب لاہور
سے فارسی میں ایم․اے․ کیا تھا۔ یہاں انہیں ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال، ڈاکٹر سید عبد ﷲ،
صوفی غلام مصطفی تبسم، پروفیسر علیم الدین سالک اور سید عابد علی عابد جیسےاساتذہ
سے ملنے اور فیض یاب ہونے کا موقع ملا تھا۔
جگن ناتھ آزاد کی ایک شادی 11 دسمبر،
1940ء کو ہوئی تھی۔ ان کی اہلیہ کا نام شکنتلا تھا۔ اس بیاہ سے پرمیلا اور مُکتا
نام کی دو بیٹیاں ہوئیں۔ شکنتلا 1946ء میں بیمار ہو گئیں اور ہر ممکن علاج کے
باوجود صحت یاب نہ ہو سکیں۔ اسی سال ان کا انتقال ہو گیا۔ آزاد نے ’’شکنتلا‘‘، ’’ایک
آرزو‘‘ اور ’’استفسار‘‘ نامی نظمیں اپنی رفیقہ حیات کی یاد میں لکھیں۔
کچھ گوشوں سے یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ قیام
پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے جگن ناتھ آزاد کا لکھا یہ قومی
ترانہ نشر کیا گیا
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
اے سر زمین پاک
تاہم محققین نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
تقسیم ہند کے بعد آزاد دیگر ارکانِ خانہ
کے ساتھ بھارت چلے آئے اور دہلی میں بس گئے۔ انہیں اولاً ’’ملاپ‘‘ میں نائب مدیر کی
ملازمت ملی تھی۔ پھر ’’ایمپلائمنٹ نیوز’’ میں روزگار پایا اسی سے منسلک ’’پبلی کیشنز
ڈویژن’’ میں اردو کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بنے۔ یہاں ان کی ملاقاتیں جوش ملیح آبادی سے
ہوئییں جو رسالہ ’’آجکل‘‘ (اردو) کے مدیر تھے۔ جوش ملیح آبادی کے علاوہ عرش ملسیانی،
بلونت سنگھ اور پنڈت ہری چند اختر جگن ناتھ آزاد کے ہم منصب رہے۔ ان کی مصاحبت سے
آزاد نے بہت کچھ جانا تھا۔
جولائی 1948ء میں آزاد کی دوسری شادی
وملا نامی خاتون سے ہوئی۔ اس بیاہ سے تین بچے مولود ہوئے۔ سب سے بڑا بیٹا آدرش،
چھوٹا بیٹا چندر کانت اور سب سے چھوٹی بیٹی پونم تھی۔
جگن ناتھ آزاد کا پہلا شعری مجموعہ
’’طبل و علم‘‘ 1948ء میں چھپا۔ 1949ء میں دوسرا مجموعۂ کلام ’’بیکراں‘‘ چھپا۔
1968ء میں آزاد نے ڈپٹی پرنسپل
انفارمیشن آفیسر پریس انفارمیشن بیورو کے طور پر سری نگر، کشمیر میں ملازمت اختیار
کی۔ وہ ڈائرکٹر پبلک ریلشنز کے طور پر 1977ء تک کام کرتے رہے۔ 1977ء میں ہی آزاد
کو پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی کی پیش کش ہوئی جسے آزاد نے منظور کیا
تھا۔ 1977ء سے 1983ء تک وہ پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی اور ڈین فیکلٹی
آف اورینٹل لرنینگ جموں یونیورسی کے عہدے پر فائز رہے۔ 1984ء سے 1989ء تک پروفیسر
ایمریٹس فیلو کی حیثیت سے شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی میں رہے اور پھر 1989ء سے اپنی
زندگی کے اخیر تک وہیں رہے۔
جگن ناتھ آزاد 24 جولائی، 2004ء
کوانتقال کر گئے تھے۔
No comments:
Post a Comment