احمد ندیم قاسمی
احمد ندیم قاسمی (20 نومبر 1916ء تا 10 جولائی 2006ء)
پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے۔
افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین شمار
ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ قاسمی صاحب نے طویل عمر پائی
اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے کچھ اوپر کتابیں تصنیف کیں .
احمد ندیم قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں
انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔ اصل نام احمد شاہ اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے
تھے۔ ندیم ان کا تخلص تھا۔
آپ کے والد پیر غلام نبی مرحوم اپنی عبادت، زہد تقویٰ کی
وجہ سے اہل اللہ میں شمار ہوتے تھے ندیم کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ 1920 میں
انگہ کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیا۔ 1923ء میں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا
حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے۔ وہاں مذہبی، عملی، اور شاعرانہ ماحول میسر آیا۔1921-25
میں گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل اسکول کیمبل پور (اٹک) میں تعلیم پائی۔ 1930-31 میں
گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کیا اور 1931 صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں
داخل ہوگئے جہاں سے 1935ء میں بی اے۔ کیا۔
قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات بھری تھی۔ جب
وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گزر بسر کا کوئی سہارا
نہ تھا۔ کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال
سے باخبر کرنے سے انہیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔ وہ
انہیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔ قاسمی صاحب اختر
شیرانی کی شاعری کے گرویدہ تو پہلے ہی سے تھے، ان کے مشفقانہ رویے نے قاسمی صاحب
کو ان سے شخصی طور پر بھی بہت قریب کر دیا۔ اختر شیرانی رند بلانوش تھے لیکن ان کے
ساتھ خاصا وقت گزارنے کے باوجود قاسمی صاحب نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور
نہ ان کی طبیعت میں لاابالی پن آیا۔ اس سے ان کے مزاج کی استقامت اور اپنے آپ پر
قابو رکھنے کی ان کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازا ہوتا ہے۔ اختر شیرانی کی شاعری
اور شخصیت سے قاسمی صاحب کا لگاؤ آخر تک رہا۔انھی دنوں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات
امتیاز علی تاج سے ہوئی جنہوں نے انہیں اپنے ماہانہ رسالے پھول کی ادارت کی پیش کش
کی جو انھوں نے قبول کر لی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا۔ اس کی ایک سالہ ادارت کے
زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی
گئیں۔
1936
میں ریفارمزکمشنر لاہور کے دفتر میں بیس روپے ماہوار پر محرر کی حیثیت سے ملازم
ہوئے اور 1937تک یہیں کام کرتے رہے۔ 1939-41 کے دوران ایکسائز سب انسپکٹر کے طور
پر ملازمت کی ۔
1939ء
میں محکمہ آبکاری میں ملازم ہوگئے۔ 1942 میں مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے۔ تہذیب
نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی 1943ء میں (ادب لطیف) کے ایڈیٹر مقرر ہوئے
1945-48 میں ریڈیوپشاور سے بحیثیت اسکرپٹ رائٹر وابستہ رہے تقسیم کے بعد ڈیڑھ سال
ریڈیو پشاور میں ملازم رہے۔
قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا 1931 میں ہوئی تھی جب
مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ سیاست لاہور کے سرورق
پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی نہیں بعد میں بھی 1934 اور
1937 کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ انقلاب لاہور اور زمیندار لاہور کے سرورق
پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انہیں عالمِ نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی
۔
مطبوعات
افسانوی مجموعے
چوپال (دارالاشاعت پنجاب لاہور 1939)
بگولے (مکتبہ اردو لاہور 1941)
طلوع و غروب (مکتبہ اردو، لاہور، 1942)
گرداب (ادارہ اشاعت اردوحیدرآباد دکن1943)
سیلاب (ادارہ اشاعت اردو، حیدرآباد دکن 1943)
آنچل(ادارہ فروغ اردو، لاہور 1944)
آبلے (ادارہ فروغِ اردو لاہور 1946)
آس پاس (مکتبہ فسانہ خواں، لاہور 1948)
درو دیوار (مکتبہ اردو،لاہور1948)
سناٹا (نیا ادارہ لاہور 1952)
بازارِ حیات (ادارہ فروغِ اردو، لاہور 1959)
برگِ حنا (ناشرین، لاہور 1959)
سیلاب و گرداب(مکتبہ کارواں، لاہور 1961)
گھر سے گھر تک (راول کتاب گھر،راولپنڈی1963
کپاس کا پھول (مکتبہ فنون، لاہور 1973)
نیلا پتھر (غالبپبلشرز، لاہور 1980)
کوہ پیما (اساطیر، لاہور۔ 1995)
شاعری
دھڑکنیں (قطعات، اردو اکیڈمی۔ لاہور) 1942
رِم جھم (قطعات و رباعیات، ادارہفروغِ اردو۔ لاہور 1944
جلال و جمال (شاعری۔ نیا ادارہ، لاہور 1946)
شعلۂ گُل (قومی دارا لاشاعت لاہور 1953)
دشتِ وفا (کتاب نما، لاہور 1963)
محیط(التحریر، لاہور 1976)
دوام (مطبوعات لاہور 1979)
لوح و خاک (اساطیر لاہور 1988)
تحقیق و تنقید
تہذیب و فن (پاکستان فاؤنڈیشنلاہور 1975)
ادب اور تعلیم کے رشتے (التحریر، لاہور 1974)
ترتیب و ترجمہ
انگڑائیاں (مرد افسانہ نگاروں کا انتخاب، ادارہاشاعت
اردو حیدرآباد دکن 1944)
نقوشِ لطیف (خواتین افسانہ نگاروں کا انتخاب،ادارہ
اشاعتِ اردو حیدرآباد دکن 1944)
پاکستان کی لوک کہانیاں (از میریلن سرچ،ترجمہ، شیخ علی اینڈ
سنز لاہور)
کیسر کیاری (مضامین، ڈرامے، تراجم، مکتبہ شعرو ادب،
لاہور 1944
منٹو کے خطوط بنام احمد ندیم قاسمی (ترتیب، کتاب
نما،لاہور 1966
نذیر حمید احمد خاں (ترتیب، مجلس ترقی ادب، لاہور 1977)
میرے ہم سفر
احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصر علالت کے بعد
حرکت قلب بند ہونے سے قریبا 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء
کو انہیں سانس کی تکلیف کے بعد لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل
کروایا گیا جہاں انہیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا اور پیر 10 جولائی 2006ء کی صبح
کو انتقال ہو گیا۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
وادی سون سکیسر کی لوک کہانیاں
ReplyDeleteوادی سون سکیسر میں160لوک کہانیاں سنانے کا بہت رواج تھا۔ عموما سردی کے موسم میں جب راتیں چاندنی سے بھرپور اور طویل ہوتی تھیں۔ نوجوان اور بوڑھے کسی بڑے ملک صاحب کے دارے پر یا اپنے اپنے گھروں160میں لکڑیوں کا مچ جلا کر بیٹھتے اور ارد گرد ستھر ڈال کر کہانیوں کا ایک سلسلہ شروع کر تے ۔ اس میں عجیب مزہ ہوتا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ حقے کا دور بھی چلتا تھا۔ اس زمانے میں چائے کا رواج نہ تھا ۔ البتہ کہانیوں میں اتنی چاشنی ہو ا کرتی تھی کہ لوگ کھانے کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے تھے۔ زندگی کا کوئی لالچ نہ ہوتا تھا۔ سادہ مزاج لوگ نہایت سادگی کی زندگی گزارا کرتے تھے۔ کمرے کی فضا گرم ہوتی ۔ کہانی سنانے والا پہلے پہلے کچھ ایسے لفظ بولتا جس سے کہانی شروع ہوتی ۔ دوستو تمہاری وجہ سے میری محفل سجی ہوئی ہے۔ جھوٹ والی باتیں جھوٹوں کے سر اور سچ والی باتیں سچوں کے سر۔ ہم وہ بات کرتے ہیں جو ہم نے سنی ہے۔ چاہے یہ جھوٹ ہو چاہے یہ سچ، میں شروع کر تا ہوں تم سب لوگ میرے مہربان اور دوست ہو لو اب سنو ۔ اور پھر اس کے بعد کوئی نہ کوئی کہانی شروع ہو جاتی اور اس طرح ساری رات کہانی ختم نہ ہوتی۔ یوسف جبریل