بخاری شریف خواب کی تعبیر کا بیان
خواب
کی تعبیر کا بیان
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ بُکَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ
ابْنِ شِهَابٍ ح و حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ
الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ
عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا
الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ فَکَانَ لَا يَرَی رُؤْيَا إِلَّا جَائَتْ مِثْلَ
فَلَقِ الصُّبْحِ فَکَانَ يَأْتِي حِرَائً فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ
التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِکَ ثُمَّ
يَرْجِعُ إِلَی خَدِيجَةَ فَتُزَوِّدُهُ لِمِثْلِهَا حَتَّی فَجِئَهُ الْحَقُّ
وَهُوَ فِي غَارِ حِرَائٍ فَجَائَهُ الْمَلَکُ فِيهِ فَقَالَ اقْرَأْ فَقَالَ لَهُ
النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ
فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ
اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّی
بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا أَنَا
بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّی بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ
ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ حَتَّی بَلَغَ
عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ فَرَجَعَ بِهَا تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ
حَتَّی دَخَلَ عَلَی خَدِيجَةَ فَقَالَ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَزَمَّلُوهُ
حَتَّی ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ يَا خَدِيجَةُ مَا لِي وَأَخْبَرَهَا
الْخَبَرَ وَقَالَ قَدْ خَشِيتُ عَلَی نَفْسِي فَقَالَتْ لَهُ کَلَّا أَبْشِرْ
فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيکَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ
الْحَدِيثَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَی نَوَائِبِ
الْحَقِّ ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّی أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ
نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّی بْنِ قُصَيٍّ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ
خَدِيجَةَ أَخُو أَبِيهَا وَکَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکَانَ
يَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعَرَبِيَّ فَيَکْتُبُ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنْ الْإِنْجِيلِ
مَا شَائَ اللَّهُ أَنْ يَکْتُبَ وَکَانَ شَيْخًا کَبِيرًا قَدْ عَمِيَ فَقَالَتْ
لَهُ خَدِيجَةُ أَيْ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنْ ابْنِ أَخِيکَ فَقَالَ وَرَقَةُ
ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَی فَأَخْبَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ مَا رَأَی فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَی
مُوسَی يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا أَکُونُ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُکَ قَوْمُکَ
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ
فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ
إِلَّا عُودِيَ وَإِنْ يُدْرِکْنِي يَوْمُکَ أَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ
لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّی حَزِنَ
النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا
مِنْهُ مِرَارًا کَيْ يَتَرَدَّی مِنْ رُئُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ فَکُلَّمَا
أَوْفَی بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِکَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ تَبَدَّی لَهُ
جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّکَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا فَيَسْکُنُ
لِذَلِکَ جَأْشُهُ وَتَقِرُّ نَفْسُهُ فَيَرْجِعُ فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ
فَتْرَةُ الْوَحْيِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِکَ فَإِذَا أَوْفَی بِذِرْوَةِ جَبَلٍ
تَبَدَّی لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِکَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَالِقُ
الْإِصْبَاحِ ضَوْئُ الشَّمْسِ بِالنَّهَارِ وَضَوْئُ الْقَمَرِ بِاللَّيْلِ
یحیی
بن بکیر، لیث، عقیل، شہاب (دوسری سند) عبداللہ بن محمد، عبدالرزاق، معمر زہری،
عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ابتداء رویائے صالحہ کے ذریعہ ہوئی
جو آپ کو نیند کی حالت میں دیکھتے، آپ جو بھی خواب دیکھتے تو وہ صبح کے ظاہر ہونے
کی طرح ظاہر ہوتا، آپ غار حرا میں تشریف لے جاتے اور تحنث کرتے یعنی کئی کئی بار میں
وہاں عبادت کرتے اور اس کے لئے کھانا ساتھ لے جاتے، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے پاس تشریف لاتے اور اسی طرح توشہ لے کر تشریف لے جاتے، اچانک ایک دن آپ کے
پاس وحی آئی، آپ اس وقت غار حرا میں تھے، وہاں جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ
پڑھ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، انہوں نے
مجھ کو پکڑا اور زور سے دبایا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ
میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، پھر مجھے پکڑ کر تیسری بار زور سے دبایا جس
سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر چھوڑ کر کہا کہ، ، اقرا باسم ربک الذی خلق، یعنی پڑھ اپنے
رب کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا، مالم یعلم تک پڑھا، آپ حضرت خدیجہ کے پاس واپس
تشریف لے گئے تو آپکے شانے تھرتھرا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے کمبل اوڑھایا، یہاں
تک کہ جب خوف کا اثر جاتا رہا تو فرمایا اے خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے کیا
ہوگیا ہے اور سارا ماجرا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت
خدیجہ نے کہا کہ ہرگز نہیں، آپ خوش ہوں خدا کی قسم، اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے
گا، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں اور سچی بات کرتے ہیں غریبوں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں
اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں پیش آنے والے مصائب میں
مدد کرتے ہیں، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو ورقہ بن نوفل بن اسد بن
عبدالعزی بن قصی کے پاس لے کر آئیں جو خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت
میں نصرانی ہوگئے تھے اور عربی زبان لکھا کرتے تھے چنانچہ انجیل عربی زبان میں
لکھا کرتے تھے جس قدر اللہ کو منظور تھا، اور بہت بوڑھے آدمی تھے اور نابینا ہوگئے
تھے۔ ان سے خدیجہ نے کہا اے چچازاد بھائی، اپنے بھتیجے کی بات سنئے، ورقہ نے پوچھا
اے بھتیجے کیا تم دیکھتے ہو، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا وہ بیان
کردیا، ورقہ نے یہی کہا کہ وہ ناموس ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا کاش کہ میں اسوقت
جوان ہوتا اور زندہ رہتا جب کہ تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، آنحضرت صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا ہاں، جو بھی شخص
یہ چیز لے کر آیا جو تم لائے ہو تو اس کی دشمنی کی گئی، اگر میں تمہارا زمانہ پاتا
تو میں تمہاری زبردست مدد کرتا، پھر کچھ ہی دنوں کے بعد اس کا انتقال ہوگیا، اور
وحی کی آمد رک گئی، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان واقعات سے جو ہم کو
معلوم ہوئے اس قدرغمگین ہوئے کہ متعدد بار بلند چوٹی پر سے اپنے آپ کو گرا کر ہلاک
کردینا چاہا، جب بھی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے کہ اپنے آپ کو گرا دیں تو جبرائیل ظاہر
ہوئے اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اللہ کے سچے رسول ہیں تو اس
سے آپ کا جوش سرد پڑجاتا اور طبیعت کو سکون ملتا اور واپس تشریف لے آتے، جب وحی کا
سلسلہ دیر تک منقطع رہا تو پھر اسی طرح نکلے، جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو جبرائیل
سامنے آئے اور اسی طرح کہا، حضرت ابن عباس نے کہا کہ فالق الاصباح سے مراد دن میں
سورج کی روشنی ہے اور رات میں چاند کی روشنی ہے۔
Narrated 'Aisha:
The commencement of the Divine Inspiration to Allah's Apostle was in the
form of good righteous (true) dreams in his sleep. He never had a dream but
that it came true like bright day light. He used to go in seclusion (the cave
of) Hira where he used to worship(Allah Alone) continuously for many (days)
nights. He used to take with him the journey food for that (stay) and then come
back to (his wife) Khadija to take his food like-wise again for another period
to stay, till suddenly the Truth descended upon him while he was in the cave of
Hira. The angel came to him in it and asked him to read. The Prophet replied,
"I do not know how to read." (The Prophet added), "The angel
caught me (forcefully) and pressed me so hard that I could not bear it anymore.
He then released me and again asked me to read, and I replied, "I do not
know how to read," whereupon he caught me again and pressed me a second
time till I could not bear it anymore. He then released me and asked me again
to read, but again I replied, "I do not know how to read (or, what shall I
read?)." Thereupon he caught me for the third time and pressed me and then
released me and said, "Read: In the Name of your Lord, Who has created
(all that exists). Has created man from a clot. Read and Your Lord is Most
Generous...up to..... ..that which he knew not." (96.15)
Then Allah's Apostle returned with the Inspiration, his neck muscles
twitching with terror till he entered upon Khadija and said, "Cover me!
Cover me!" They covered him till his fear was over and then he said,
"O Khadija, what is wrong with me?" Then he told her everything that
had happened and said, 'I fear that something may happen to me." Khadija
said, 'Never! But have the glad tidings, for by Allah, Allah will never
disgrace you as you keep good reactions with your Kith and kin, speak the
truth, help the poor and the destitute, serve your guest generously and assist
the deserving, calamity-afflicted ones." Khadija then accompanied him to (her
cousin) Waraqa bin Naufal bin Asad bin 'Abdul 'Uzza bin Qusai. Waraqa was the
son of her paternal uncle, i.e., her father's brother, who during the
Pre-Islamic Period became a Christian and used to write the Arabic writing and
used to write of the Gospels in Arabic as much as Allah wished him to write. He
was an old man and had lost his eyesight. Khadija said to him, "O my
cousin! Listen to the story of your nephew." Waraqa asked, "O my
nephew! What have you seen?" The Prophet described whatever he had seen.
Waraqa said, "This is the same Namus (i.e., Gabriel, the Angel who
keeps the secrets) whom Allah had sent to Moses. I wish I were young and could
live up to the time when your people would turn you out." Allah's Apostle
asked, "Will they turn me out?" Waraqa replied in the affirmative and
said: "Never did a man come with something similar to what you have
brought but was treated with hostility. If I should remain alive till the day
when you will be turned out then I would support you strongly." But after
a few days Waraqa died and the Divine Inspiration was also paused for a while
and the Prophet became so sad as we have heard that he intended several times
to throw himself from the tops of high mountains and every time he went up the
top of a mountain in order to throw himself down, Gabriel would appear before
him and say, "O Muhammad! You are indeed Allah's Apostle in truth"
whereupon his heart would become quiet and he would calm down and would return
home. And whenever the period of the coming of the inspiration used to become
long, he would do as before, but when he used to reach the top of a mountain,
Gabriel would appear before him and say to him what he had said before. (Ibn
'Abbas said regarding the meaning of: 'He it is that Cleaves the daybreak (from
the darkness)' (6.96) that Al-Asbah. means the light of the sun during the day
and the light of the moon at night).
No comments:
Post a Comment