ضیاء فتح آبادی
ضیاء فتح آبادی (پیدائش: 9 فروری 1913ء
وفات: 19 اگست 1986ء) اردو شاعر تھے۔
ضیاء فتح
آبادی کا اصل نام مہر لال سونی تھا۔ وہ کپورتھلہ پنجاب میں اپنے ماموں شنکر داس
پوری کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ ایک اردو نظم نگار و غزل گو شاعر تھے۔ انکے والد منشی
رام سونی فتح آباد ضلع ترن تارن پنجاب کے رہنے والے تھے اور پیشے کے اعتبار سے ایک
مدنی مہندس تھے۔ ضیاء نے اپنی ابتدائی تعلیم جےپور راجستھان کے مہاراجہ ہائی سکول
میں حاصل کی اور اسکے بعد 1931 سے لیکر 1935 تک لاہور کے فورمین کرسچن کالج میں
پڑھتے ہوئے بی اے (آنرز) (فارسی) اور ایم اے (انگریزی) کی اسناد حاصل کیں اسی
دوران انکی ملاقات کرشن چندر ، ساغر نظامی ، جوش ملیح آبادی ، میراجی اور ساحر ہوشیارپوری
سے ہوئی۔ ان احباب میں آپس میں ایک ایسا رشتہ قایم ہوا جو تمام عمر بخوبی نبھایا گیا۔
انہی دنوں انکے کالج میں میرا نام کی ایک بنگالی لڑکی بھی پڑھتی تھی کہتے ہیں کہ
اسکے حسن کا بہت چرچا تھا۔ اسی کے نام پر ضیاء کے دوست محمد ثناءاللہ ڈار
"ساحری" نے اپنا تخلص میراجی رکھا تھا۔ اسی میرا نے ضیاء پر بھی اپنا
اثر چھوڑا۔
ضیاء کی
اردو شاعری کا سفر انکی والدہ کی نگرانی میں مولوی اصغر علی حیاء جےپوری کی مدد سے
1925 میں شروع ہو گیا تھا اور انکا نام 1929 میں ہی ابھرنے لگا تھا۔ انکو ضیاء
تخلص غلام قادر امرتسری نے عطا کیا تھا۔ 1930 میں ضیاء سیماب اکبرآبادی کے شاگرد
ہوگئے تھے
ضیاء کا
اولین مجموعہ کلام" طلوع " کے نام سے ساغر نظامی نے 1933 میں میرٹھ شہر
سے شائع کیا تھا۔ اسکے بعد انکے مزید مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ضیاء نے افسانے بھی
لکھے اور تنقیدی مضامین بھی۔ ضیاء کے نشری کارناموں میں سیماب اکبرآبادی پر لکھے
گئے " ذکرِ سیماب " اور " سیماب بنام ضیاء" اہم ہیں 1951 میں
ضیاء نے سیماب نام سے ایک ماہانہ رسالہ بھی شروع کیا تھا جو انکی ملازمت کی بندشوں
نے سال بھر ہی چلنے دیا اور پھر بند کر دینا پڑا تھا۔ ضیاء نے ریزرو بینک آف انڈیا
میں 1936 سے کام کرنا شروع کیا تھا جہاں سے 1971 میں ریٹائر ہونے کے بعد دہلی میں
رہنے لگے تھے۔
ضیاء فتح
آبادی کا انتقال 19 اگست 1986 کو ایک طویل علالت سہنے کے بعد دہلی کے سر گنگا رام
ہسپتال میں ہوا۔ آپ نے 73برس کی عمر پائی۔ انکے پرانے دوست ساحر ہوشیارپوری نے
مندرجہ ذیل قطعہ اس موقع پر کہا تھا۔
جو کر سکو
نہ بیاں تم بہ صورتِ الفاظٓ
فسانۂ غمِ
ہستی بہ چشمِ نم کہہ لو
زبان و فکر و تخیّل جو ساتھ دے نہ سکے
تو "دل" کو ساتھ ملا کر
"غمِ ضیاء سہہ لو"
ازل میں جب
ہوئی تقسیم عالم فانی
بطور خاص
ملا سوز جاوداں مجھکو
وہ ہنر آدمی
کی فطرت ہے
جو ہنر عیب
سے بری ہی نہیں
طے کر چکا
ہوں منزلیں آغاز شوق کی
اب انتظار
ہے نہ شب انتظار ہے
مدّت ہوئی
چاہا تھا تجھے مجھ سے ابھی تک
لیتا ہے
زمانہ اسی تقصیر کے بدلے
راز بقا
سمجھ نہ سکا جب بقید زیست
فردا کی اک
امید پے انساں فنا ہوا
اسنے بھلا
دیا تجھے، تھی یہ بھی مصلحت
لیکن تو
اسکو بھول گیا یہ برا ہوا
تو نے کہا
تھا زندگی صرف فریب ہوش ہے
مجھکو جہان
زیست پر آگیا اعتبار دیکھ
طاقت
انتظار تھی کہ نہ تھی
جرّت
انتظار کی ہوتی
پھیر لی تو
نے نگاہ التفات
میری ساری
مشکلیں آساں ہوئیں
ہم زمیں
والوں کی جو پہلے پہل
آسماں
پرنظرگئی ہوگی
جسم پا کے
اٹھتے ہیں
کاینات میں
نغمے
کاش دل کو
مرے ملی ہوتی
تجھ کو
پانے کی یہ لگن تنہا
کسے احساس تھا اسیری کا
بند کھڈکی اگر نہیں کھلتی
No comments:
Post a Comment