جانثار اختر
(1914–1976)
جانثار اختر18 فروری 1914کو گوالیار (بھارت) میں پیدا ہونے۔ ان کے والد مظفر خیر آبادی اور تایا بسمل خیر آبادی دونوں شاعر تھے۔
جانثار اختر نے میٹرک کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لےلیا تھا۔ یہاں سے انہوں نے بی اے آنرز اور ایم اے کی ڈگریاں لیں۔
جانثار اختر نے وکٹوریہ کالج گوالیار میں اردو کے لیکچرر کی حیثیت سے کام کیا۔
1943ء میں جانثار اختر کی شادی اسرار الحق مجاز لکھنوی کی ہمشیرہ صفیہ سراج الحق سے ہو گئی۔ ان کے دو بیٹے جاوید اختر اور سلمان اختر 1945ء اور 1946ء میں پیدا ہوئے۔
آزادی کے بعد جانثار اختر نے بھوپال کا رُخ کیا اور یہیں کے حمیدیہ کالج میں اردو اور فارسی کے شعبوں کی ذمے داری سنبھالی۔ یہیں سے وہ تحریک ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوئے اور اپنی بلندآور شخصیت کی وجہ سے اس تحریک کے صدر بنے۔
1949ء میں جانثار اختر نے تدریس سے استعفیٰ دیا ۔ وہ ممبئی چلے گئے ۔ ممبئی آنے کے ان کے دو عزائم تھے: ایک فلمی نغمہ نگاری اور دوسرا اپنے شعری مجموعوں کی اشاعت۔ ممبئی میں وہ ملک راج آنند، کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی اور دیگر ترقی پسند ادیبوں سے جاملے تھے۔ جانثار اختر کے شعری مجموعوں میں ’’نظرتباں‘‘، ’’سلاسل‘‘،’’جاوداں‘‘،’’پچھلی پہر‘‘،’’گھر آنگن‘‘،اور ’’خاک دل‘‘ شامل ہیں۔’’خاک دل‘‘پر انہیں 1976میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا۔ جانثار اختر نے مجموعی طور پر 151فلمی گیت لکھے۔ انہوں نے زیادہ تر سی رام چندر،اوپی نیر اور خیام جسے سنگیت کاروں کے ساتھ کام کیا۔ 1976ء میں وہ رضیہ سلطان فلم کے نغمے اپنی زندگی کے آخری فلم کے طور پر لکھے تھے۔
1953ء میں جانثار کی اہلیہ صفیہ کا انتقال ہوا۔ صفیہ کے جانثار اختر کے نام خطوط کے مجموعوں کوجانثار نے 1955میں کیا۔ یہ مجموعے دو عنوانوں سے ’’حرف آشنا‘‘اور ’’زیر لب‘‘ چھاپے گئے تھے۔ ستمبر 1956ء میں جانثار اختر نے خدیجہ طلعت نامی خاتون سے شادی کر لی تھی۔
جانثار کی شاعری میں عمومًا رومانیت کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ گاہے گاہے اشتراکی نظریات سے بھی متاثر معلوم ہوتے ہیں۔
جانثار اختر کا انتقال 1976ء میں ہوا تھا۔
No comments:
Post a Comment