اختر الایمان
(1915-1996)
اختر الایمان (1995ء ۔
1915ء ) ضلع بجنور (اترپردیش) کی تحصیل نجیب آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد
کا نام مولوی فتح محمد تھا ۔ اخترالایمان
کا پیدائشی نام راؤ فتح محمد رکھا گیا تھا۔ راؤ اس راجپوت کھرانے کی وجہ سے تھا،
جن سے ان کا تعلق تھا۔ اسی نام کی مناسبت سے ان کے گاؤں کا نام راؤ کھیڑی
تھا۔
اس قلمی نام کو چننے کی
وجہ یہ تھی کہ اس سے 1334ھ کا سال نکلتا ہے جو 1915ء اور 1916ء کو محیط ہے۔ اختر
الایمان کی ولادت 12 نومبر 1915ء کو ہوئی تھی۔
اختر الایمان نے دہلی یونیورسٹی
سے بی اے پاس کیا تھا۔ [1] انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی
تھی۔
اس کے بعد کچھ عرصے تک
وہ محکمہ سول سپلائز سے جڑے رہے۔ پھر انہوں نے آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں بھی کام کیا
تھا ۔
اختر الایمان ابتدائی
ملازمتوں کے بعد میں فلموں میں کرنے سے پہلے پونے گئے تھے۔ پھر وہ ممبئی نقلِ مقام کر گئے تھے جہاں تاحیات
فلموں میں مکالمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔
اختر الایمان نے اپنی
سوانح اور کچھ نظموں میں کئی لڑکیوں یا عورتوں کا ذکر کیا ہے جن سے ان کے قریبی
تعلقات تھے۔ یہ ان کی سلطانہ منصوری سے شادی سے پہلے کے واقعات تھے۔ اختر کی یہ
شادی ہندوستان کی تقسیم کے دور میں ہوئی تھی۔ ان کی اولاد کی تعداد چار ہے۔ ان کی
ایک لڑکی کا نام اسما ہے جبکہ سب سے بڑی لڑکی کا نام شہلا ہے۔ ان کی ایک اور لڑکی
کا نام رخشندہ ہے۔ ان کے علاو ایک لڑک ہے جسکا نام رامش ے۔ یہ تیسرے نمبرپے۔
اختر الایمان کی تصانیف
میں ایک منظوم ڈراما بعنوان “سب رنگ“ 1948ء میں چھپا تھا ۔ان کے کلام کا مجموعے کا
عنوان “یادیں “ تھا۔ اسے 1962ء میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا ۔ انکا آخری مجموعہ
کلام انکے انتقال کے بعد “زمستان سرد مہری کا “ کے نام سے شائع ہوا تھا۔
اخترالایمان نطم کے شاعر
تھے۔ ان کی تقریبًا تمام نطمیں ہیئت کے اعتبار سے آزاد یا معرا ہیں ۔اخترالایمان کی
سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے روایتی شعری وضع داری سے خود کو الگ رکھا ۔
ان کی شاعری کو فکری لحاظ سے “اس عہد کا ضمیر“ کہا گیا ہے ۔
اخترالایمان جب نوشادی
شدہ تھے، میراجی ان کے گھر میں مہمان تھے۔ اختر کی سوانح کے بقول، وہ اچھے مہمان
نہیں تھے، ان کی صحت خراب رہتی تھی۔ پھر بھی نوشادی شدہ جوڑا ان کی دیکھ ریکھ میں
کوئی کمی نہیں چھوڑا تھا۔
میراجی کے علاوہ راجندر
سنگھ بیدی، مجروح سلطانپوری، جانثار اختر اور قاضی سلیم سے اخترالایمان کے گھریلو
مراسم تھے۔
نمونہ کلام
نہ زہر خند لبوں پر، نہ
آنکھ میں آنسو
نہ زخم ہائے دروں کو ہے
جستجوئے مآل
نہ تیرگی کا تلاطم، نہ سیل
رنگ و نور
نہ خار زار تمنّا نہ
گمرہی کا خیال
نہ آتش گل و لالہ کا داغ
سینے میں
نہ شورش غم پنہاں، نہ
آرزوئے وصال
نہ اشتیاق، نہ حیرت، نہ
اضطراب، نہ سوگ
سکوت شام میں کھوئی ہوئی
کہانی کا
طویل رات کی تنہائیاں نہیں
ہے رنگ
ابھی ہوا نہیں شاید لہو
جوانی کا
حیات و موت کی حد میں ہیں
ولولے چپ چاپ
گزر رہے ہیں دبے پاؤں
قافلے چپ چاپ
No comments:
Post a Comment