مجید امجد
(1914–1974)
جدید اردو نظم کے ایک اہم ترین شاعر۔
جنہوں نے اپنی شاعری سے اردو نظم کو نیا آہنگ بخشا۔
29 جون،
1914ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ 1930ء میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے بی اے کیا۔
1939ء تک جھنگ کے ہفت روزہ اخبار عروج کے مدیر رہے۔ 1944ء انسپکٹر سول سپلائر مقرر
ہوئے۔ ترقی پاکر اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر بنے۔ ملازمت کا زیادہ عرصہ منٹگمری موجودہ ساہیوال
میں گزار ۔ جہاں سے وہ 29 جون 1972ء کو ریٹائر ہوئے۔
1939ء میں
خالہ کی بیٹی سے شادی ہوئی۔ جو گورنمنٹ اسکول جھنگ میں استانی تھیں۔ دونوں کے مزاج
میں اختلاف تھا۔ وہ اولاد سے محروم رہے۔
آخری ایام
انتہائی عسرت اور تنگی میں گزرے ۔ وفات سے ایک ماہ پہلے تک انہیں پینشن نہ مل سکی۔
نوبت تقریباً فاقہ کشی تک پہنچ گئی۔ آخر اسی کیفیت میں گیارہ مئی، 1974ء کے روز
اپنے کوارٹر واقع فرید ٹاون ساہیوال میں مردہ پائے گئے۔ تدفین آبائی وطن جھنگ میں
ہوئی۔
مجید امجد
کے بارے میں خواجہ محمد زکریا لکھتے ہیں: مجید امجد اردو نظم کے ایک انتہائی اہم
اور منفرد لہجے کے شاعر ہیں ان کا کلام معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے بے مثال
ہے۔ جتنا تنوع ان کے ہاں پایا جاتا ہے وہ اردو کے کسی جدید شاعر میں موجود نہیں ۔
ان کی تقریباً ہر نظم مختلف موضوع اور مختلف ہیت میں تخلیق ہوئی ہے۔ ان کے کلام میں
زبردست آورد پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود جذباتی گہرائی جتنی ان کے ہاں ملتی ہے، وہ
عصر حاضر میں کسی اور کے ہاں نایاب ہے۔ انہیں ادبی حلقوں نے مسلسل نظر انداز کیا لیکن
انہوں نے کبھی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
اگر میں
خدا اس زمانے کا ہوتا
تو عنواں
کچھ اور اس فسانے کا ہوتا
عجب لطف دنیا
میں آنے کا ہوتا
مگر ہائے
ظالم زمانے کی رسمیں
ہیں کڑواہٹیں
جن کی امرت کی رس میں
نہیں مرے
بس میں نہیں مرے بس میں
مری عمر بیتی
چلی جارہی ہے
دو گھڑیوں
کی چھاؤں ڈھلی جارہی ہے
ذرا سی یہ
بتی جلی جارہی ہے
جونہی چاہتی
ہے مری روح مدہوش
کہ لائے
ذرا لب پہ فریاد پر جوش
اجل آکے کہتی ہے خاموش! خاموش
No comments:
Post a Comment