امرتسر
آزادی سے پہلے
کرشن چندر
جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا۔ اس مجمع
میں ہندو تھے، سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی۔ ہندو مسلمانوں سے اور مسلمان سکھوں سے
الگ صاف پہچانے جاتے تھے۔ صورتیں الگ تھیں، مزاج الگ تھے، تہذیبیں الگ تھیں۔ مذہب
الگ تھے لیکن آج یہ سب لوگ جلیان والا باغ میں ایک ہی دل لے کے آئے تھے۔ اس دل میں
ایک ہی جذبہ تھا اور اس جذبے کی تیز اور تند آنچ نے مختلف تمدن اور سماج ایک کر دئیے
تھے۔ دلوں میں انقلاب کی ایک ایسی پیہم رو تھی کہ جس نے آس پاس کے ماحول کو بھی
برقا دیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس شہر کے بازاروں کا ہر پتھر اور اس کے
مکانوں کی لہر ایک اینٹ اس خاموش جذبے کی گونج سے آشنا ہے اور اس لرزتی ہوئی دھڑکن
سے نغمہ ریز ہے۔ جو ہر لمحے کے ساتھ گویا کہتی جاتی ہو۔ آزادی، آزادی، آزادی……..
جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا اور سبھی نہتے تھے اور سبھی آزادی کے
پرستار تھے۔ ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں نہ ریوالور نہ برین گن نہ اسٹین گن۔ ہنڈ گری
نیڈ نہ تھے۔ دیسی یا ولایتی ساخت کے بمب بھی نہ تھے مگر پاس کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی
نگاہوں کی گرمی کسی بھونچال کے قیامت خیز لا وے کی حدّت کا پتہ دیتی تھی۔ سامراجی
فوجوں کے پاس لوہے کے ہتھیار تھے۔ یہاں دل فولاد کے بن کے رہ گئے تھے اور روحوں میں
ایسی پاکیزگی سی آ گئی تھی جو صرف اعلیٰ د
ارفع قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔ پنجاب کے پانچوں دریاؤں کا پانی اور ان کے رومان اور
ان کا سچا عشق اور ان کی تاریخی بہادری آج ہر فرد بشر بچے بوڑھے کے ٹمٹماتے ہوئے
رخساروں میں تھی، ایک ایسا اجلا اجلا غرور جو اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب قوم جوان ہو
جاتی ہے اور سویا ہوا ٹک بیدار ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے امرتسر کے یہ تیور دیکھے ہیں۔
وہ ان گروؤں کے اس مقدس شر کو کبھی نہیں بھلا سکتے۔ جلیان والا باغ میں ہزاروں کا
مجمع تھا اور گولی بھی ہزاروں پر چلی۔ تینوں طرف راستہ بند تھا اور چوتھی طرف ایک
چھوٹا سا دروازہ تھا۔ یہ دروازہ جو زندگی سے موت کو جاتا تھا۔ ہزاروں نے خوشی خوشی
جام شہادت پیا، آزادی کی خاطر، ہندو مسلمانوں اور سکھوں نے مل کر اپنے سینوں کے
خزانے لٹا دئیے اور پانچوں دریاؤں کی سرزمین میں ایک چھٹے دریا کا اضافہ کیا تھا۔ یہ
ان کے ملے جلے خون کا دریا تھا یہ ان کے لہو کی طوفانی ندی تھی جو اپنی امنڈتی ہوئی
لہروں کو لئے ہوئے اٹھی اور سماجی قوتوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئی، پنجاب
نے سارے ملک کے لئے اپنے خون کی قربانی دی تھی اور اس وسیع آسمان تلے کسی نے آج تک
مختلف تہذیبوں، مختلف مذہبوں اور مختلف مزاجوں کو ایک ہی جذبے کی خاطر یوں مدغم
ہوتے نہ دیکھا تھا۔ جذبہ شہیدوں کے خون سے استوار ہو گیا تھا۔ اس میں رنگ آ گیا
تھا۔ حسن، رعنائی اور تخلیق کی چمک سے جگمگا اٹھا…. آزادی…. آزادی….آزادی۔
صدیق
کٹرہ فتح خاں میں رہتا تھا۔ کٹرہ فتح خاں میں اوم پرکاش بھی رہتا تھا جو امرتسر کے
ایک مشہور بیوپاری کا بیٹا تھا۔ صدیق اسے اور ادم پرکاش صدیق کو بچن سے جانتا تھا۔
وہ دونوں دوست نہ تھے کیونکہ صدیق کا باپ کچا چمڑہ بیچتا تھا اور غریب تھا اور اوم
پرکاش کا باپ بینکر تھا اور امیر تھا لیکن دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ دونوں
ہمسائے تھے اور آج جلیان والا باغ میں دونوں اکٹھے ہو کر ایک ہی جگہ پر اپنے رہنماؤں
کے خیالات اور ان کے تاثرات کو اپنے دل میں جگہ دے رہے تھے۔ کبھی کبھی وہ یوں ایک
دوسرے کی طرف دیکھ لیتے اور یوں مسکرا اٹھتے جیسے وہ سدا سے بچن کے ساتھی ہیں اور
ایک دوسرے کا بھید جانتے ہیں۔ دل کی بات نگاہوں میں نتھر آئی تھی…. آزادی…. آزادی….آزادی۔
اور جب گولی چلی تو پہلے اوم پرکاش کو لگی کندھے کے
پاس اور وہ زمین پر گر گیا۔ صدیق اسے دیکھنے کے لئے جھکا تو گولی اس کی ٹانگ کو چھیدتی
ہوئی پار ہو گئی۔ پھر دوسری گولی آئی۔ پھر تیسری۔ پھر جیسے بارش ہوتی ہے۔ بس اسی
طرح گولیاں برسنے لگیں اور خون بہنے لگا اور سکھوں کا خون مسلمانوں میں اور
مسلمانوں کا خون ہندوؤں میں مدغم ہوتا گیا۔ ایک ہی گولی تھی، ایک ہی قوت تھی، ایک
ہی نگاہ تھی جو سب دلوں کو چھیدتی چلی جا رہی تھی۔
صدیق
اوم پرکاش پر اور بھی جھک گیا۔ اس نے اپنے جسم کو اوم پرکاش کے لئے ڈھال بنا لیا
اور پھر وہ اوم پرکاش دونوں گولیوں کی بارش میں گھٹنوں کے بل گھسٹتے گھسٹتے اس دیوار
کے پاس پہنچا تو اتنی اونچی نہ تھی کہ اسے کوئی پھلانگ نہ سکتا لیکن اتنی اونچی
ضرور تھی کہ اسے پھلانگتے ہوئے کسی سپاہی کی گولی کا خطرناک نشانہ بننا زیادہ مشکل
نہ تھا۔ صدیق نے اپنے آپ کو دیوار کے ساتھ لگا دیا اور جانور کی طرح چاروں پنجے زمین
پر ٹیک کر کہا۔
’’
لو پرکاش جی خدا کام نام لے کے دیوار پھلانگ جاؤ۔‘‘ گولیاں برس رہی تھیں۔ پرکاش نے
بڑی مشکل سے صدیق کی پیٹھ کا سہارا لیا اور پھر اونچا ہو کر اس نے دیوار کو
پھلانگنے کی کوشش کی۔ ایک گولی سنسناتی ہوئی آئی۔
’’جلدی
کرو ‘‘صدیق نے نیچے سے کہا۔
لیکن
اس سے پہلے پرکاش نیچے جا چکا تھا۔ صدیق نے اسی طرح اکڑوں رہ کر اِدھر اُدھر دیکھا
اور پھر یک لخت سیدھے ہو کر جو ایک جست لگائی تو دیوار کے دوسری طرف لیکن دوسری
جاتے جاتے سنسناتی ہوئی گولی اس کی دوسری ٹانگ کے پار ہو گئی۔
صدیق
پرکاش کے اوپر جا گرا پھر جلدی سے الگ ہو کر اسے اٹھانے لگا۔
’’تمہیں
زیادہ چوٹ تو نہیں آئی پرکاش۔‘‘
لیکن
پرکاش مرا پڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ہیرے کی انگوٹھی بھی زندہ تھی۔ اس کی جیب میں
دو ہزار کے نوٹ کلبلا رہے تھے۔ اس کا گرم خون ابھی تک زمین کو سیراب کئے جا رہا
تھا۔ حرکت تھی، زندگی تھی، اضطراب تھا، لیکن وہ خود مر چکا تھا۔
صدیق
نے اسے اٹھایا اور اسے گھر لے چلا، اس کی دونوں ٹانگوں میں درد شدت کا تھا۔ لہو بہ
رہا تھا۔ ہیرے کی انگوٹھی نے بہت کچھ کہا سنا، لوگوں نے بہت کچھ سمجھایا۔ وہ تہذیب
جو مختلف تھی۔ وہ مذہب جو الگ تھا، وہ سوچ جو بیگانہ تھا۔ اس نے طنز و تشنیع سے بھی
کام لیا لیکن صدیق نے کسی نہ سنی اور اپنے بہتے ہوئے لہو اور اپنی نکلتی ہوئی زندگی
کی فریاد بھی نہ سنی اور اپنے راستے پر چلتا گیا۔ یہ راستہ بالکل نیا تھا گو کٹرہ
فتح خاں ہی کو جاتا تھا۔ آج فرشتے اس کے ہمراہ تھے گو وہ ایک کافر کو اپنے کندھے
پر اٹھائے ہوئے تھا۔
آج
اس کی روح اس قدر امیر تھی کہ کٹرہ فتح خاں پہنچ کراس نے سب سے کہا ’’یہ لو ہیرے کی
انگوٹھی اور یہ لو دو ہزار روپے کے نوٹ اور یہ ہے شہید کی لاش‘‘۔ اتنا کہہ کر صدیق
بھی وہیں گر گیا اور شہر والوں نے دونوں کا جنازہ اس دھوم سے اٹھایا گویا وہ سگے
بھائی تھے۔
ابھی
کرفیو نہ ہوا تھا۔ کوچہ رام داس کی دو مسلمان عورتیں، ایک سکھ عورت اور ایک ہندو
عورت سبزی خریدنے آئیں۔ وہ مقدس گوردوارے کے سامنے سے گزریں ہر ایک نے تعظیم دی
اور پھر منہ پھیر کر سبزی خریدنے میں مصروف ہو گئیں۔ انہیں بہت جلد لوٹنا تھا۔ کرفیو
ہونے والا تھا اور فضا میں شہیدوں کے خون کی گونج رہی تھی پھر بھی باتیں کرتے اور
سودا خریدتے انہیں دیر ہو گئی اور جب واپس چلنے لگیں تو کرفیو میں چند منٹ ہی باقی
تھے۔
بیگم
نے کہا ُُآؤ اس گلی سے نکل چلیں۔ وقت سے
پہنچ جائیں گے۔‘‘
پارو
نے کہا ’’پر وہاں تو پہرہ ہے گوروں کا۔ شام کور بولی اور گوروں کا کوئی بھروسہ نہیں۔‘‘
زینب
نے کہا ’’وہ عورتوں کو کچھ نہ کہیں گے ہم گھونگھٹ کاڑھے نکل جائیں گی جلدی سے
چلو۔‘‘
وہ
پانچوں دوسری گلی سے ہولیں فوجیوں نے کہا اس جھنڈے کو سلام کرو یہ یونین جیک ہے۔
عورتوں نے گھبرا کر اور بوکھلا کر سلام کیا۔ اب یہاں سے وہاں تک۔ فوجی نے گلی کی
لمبائی بتاتے ہوئے کہا، ’’گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی یہاں سے فی الفور نکل جاؤ۔‘‘
’’گھٹنوں
کے بل ۔۔۔ یہ تو ہم سے نہ ہو گا‘‘ زینب نے
چمک کر کہا۔ ’’اور جھک کر چلو…. سرکار کا حکم ہے گھٹنوں کے بل گھسٹ کر چلو۔‘‘
’’ہم
تو یوں جائیں گے‘‘۔ شام کور نے تن کر کہا، ’’ دیکھیں کون روکتا ہے۔ ہمیں‘‘ یہ کہہ کر وہ چلی۔
’’ٹھہرو،
ٹھہرو‘‘ پارو نے ڈر کر کہا۔ ’’ٹھہرو، ٹھہرو‘‘
گورے
نے کہا ’’ہم گولی مارے گا۔ ‘‘
شام
کور سیدھی جا رہی تھی۔ ٹھائیں، شام کور گر گئی۔ زینب اور بیگم نے ایک دوسری کی طرف
دیکھا اور پھر وہ دونوں گھٹنوں کے بل گر گئیں۔ گورا خوش ہو گیا اس نے سمجھا کہ
سرکار کا حکم بجا لا رہی ہیں۔ زینب اور بیگم نے گھٹنوں کے بل گر کر اپنے دونوں
ہاتھ اوپر اٹھائے اور چند لمحوں کے سکوت کے بعد وہ دونوں سیدھی کھڑی ہو گئیں اور
گلی کو پار کرنے لگیں۔ گورا بھونچکا رہ گیا۔ پھر غصے سے اس کے گال تمتما اٹھے اور
اس نے رائفل سیدھی کی۔ ٹھائیں، ٹھائیں۔
پارو
رونے لگی۔ ’’اب مجھے بھی مرنا ہو گا۔ یہ کیا مصیبت ہے۔ میرے پتی دیو۔ میرے بچو، میری
ماں جی، میرے پتا، میرے ویرو، مجھے شما کرنا، آج مجھے بھی مرنا ہو گا، میں مرنا نہیں
چاہتی، پھر مجھے بھی مرنا ہو گا، میں اپنی بہنوں کا ساتھ نہیں چھوڑوں گی۔ ‘‘پارو روتے
روتے آگے بڑھی۔
گورے
نے نرمی سے اسے سمجھایا ’’رونے کی ضرورت نہیں، سرکار کا حکم مانو اور اس گلی میں یوں
گھٹنوں کے بل گر کر چلتی جاؤ، پھر تمہیں کوئی کچھ نہ کہے گا‘‘۔ گورے نے خود گھٹنے
پر گر کر اسے چلنے کا انداز سمجھایا۔
پارو
روتے روتے گورے کے قریب آئی۔ گورا اب سیدھا تن کر کھڑا تھا۔ پارو نے زور سے اس کے
منہ پر تھوک دیا اور پھر پلٹ کر گلی کو
پار کرنے لگی۔ وہ گلی کے بیچوں بیچ سیدھی تن کر چلی جا رہی تھی اور گورا اس کی طرف
حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ چند لمحوں کے بعد
اس نے اپنی بندوق سیدھی کی اور پارو جو اپنی سہیلیوں میں سب سے زیادہ کمزور اور
بزدل تھی۔ سب سے آگے جا کر مر گئی۔
پارو،
زینب، بیگم اور شام کور۔ گھر کی عورتیں، پردے دار خواتین، عفت مآب بی بیاں، اپنے سینوں
میں اپنے خاوند کا پیار اور اپنے بچوں کی ممتا کا دودھ لئے ظلم کی اندھیری گلی سے
گزر گئیں۔ اس کے جسم گولیوں سے چھلنی ہو گئے، لیکن ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔ اس وقت
کسی کی محبت نے پکارا ہو گا۔ کسی کے ننھے بازوؤں کا بلاوا آیا ہو گا کسی کی سہانی
مسکراہٹ دکھائی دی ہو گی لیکن ان کی روحوں نے کہا نہیں، آج تمہیں جھکنا نہیں ہے۔
آج صدیوں کے بعد وہ لمحہ آیا ہے جب سارا ہندوستان جاگ اٹھا ہے اور سیدھا تن کر اس
گلی سے گزر رہتا ہے، سر اٹھائے آگے بڑھ رہا ہے، سر اٹھائے آگے بڑھ رہا ہے۔ زینب….
بیگم…. پارو…. شام کور….
کس
نے کہا اس ملک سے سیتا مر گئی؟ کس نے کہا اب اس دیس میں ستی ساوتری پیدا نہیں ہوتی؟….
آج اس گلی کا ہر ذرہ کسی کے قدوسی لہو سے روشن ہے۔ شام کور، زینب، پارو، بیگم، آج
تم خود اس گلی سے سر اونچا کر کے نہیں گزری ہو، آج تمہارا دیس فخر سے سر اٹھائے اس
گلی سے گزر رہتا ہے۔ آج آزادی کا اونچا جھنڈا اس گلی سے گزر رہتا ہے، آج تمہارے دیس
تمہاری تہذیب، تمہارے مذہب کی قابل احترام روایتیں زندہ ہو گئیں، آج انسانیت کا سر
غرور سے بلند ہے۔ تمہاری روحوں پر ہزاروں، لاکھوں سلام….
امرتسر
آزادی کے بعد پندرہ اگست 1947ء کو ہندوستان آزاد ہوا۔ پاکستان آزاد ہوا۔ پندرہ
اگست 1947ء کو ہندوستان بھرمیں جشن آزادی منایا جا رہا تھا اور کراچی میں آزاد
پاکستان کے فرحت ناک نعرے بلند ہو رہے تھے۔ پندرہ اگست 1947ء کو لاہور جل رہا تھا
اور امرت سر میں ہندو مسلم سکھ عوام فرقہ وارانہ فساد کی ہولناک لپیٹ میں آ چکے
تھے کیونکہ کسی نے پنجاب کے عوام سے نہیں پوچھا تھا کہ تم الگ رہنا چاہتے ہو یا مل
جل کے جیسا تم صدیوں سے رہتے چلے آئے ہو۔ صدیوں پہلے مطلق العنانی کا دور دورہ تھا
اور کسی نے عوام سے کبھی نہ پوچھا تھا پھر انگریزوں نے اپنے سامراج کی بنیاد ڈالی
اور انہوں نے پنجاب سے سپاہی اور گھوڑے اپنی فوج میں بھرتی کئے اور اس کے عوض
پنجاب کو نہریں، پنشنیں عطا فرمائیں لیکن انہوں نے بھی پنجابی عوام سے یہ سب کچھ
پوچھ کے تھوڑی کیا تھا۔
اس
کے بعد سیاسی شعور آیا اور سیاسی شعور کے ساتھ جمہوریت آئی اور جمہوریت کے ساتھ
جمہوری سیاست دان آئے اور سیاسی جماعتیں آئیں لیکن فیصلہ کرتے وقت انہوں نے پنجابی
عوام سے کچھ نہ پوچھا ایک نقشہ سامنے رکھ کر پنجاب کی سرزمین کے نوک قلم سے دو
ٹکڑے کر دئیے۔ فیصلہ کرنے والے سیاست دان گجراتی تھے، کشمیری تھے، اس لئے پنجاب کے
نقشے کو سامنے رکھ کر اس پر قلم سے ایک لکیر، ایک حد فاضل قائم کر دینا ان کے لئے
زیادہ مشکل نہ تھا۔ نقشہ ایک نہایت ہی معمولی سی چیز ہے۔ آٹھ آنے روپے میں پنجاب
کا نقشہ ملتا ہے۔ اس پر لکیر کھینچ دینا بھی آسان ہے۔ ایک کاغذ کا ٹکڑا، ایک
روشنائی کی لکیر، وہ کیسے پنجاب کے دکھ کو سمجھ سکتے تھے۔ اس لکیر کی ماہیت کو جو
اس نقشے کو نہیں پنجاب کی دل کو چیرتی ہوئی چلی جا رہی تھی۔
پنجاب
کے تین مذہب تھے، لیکن اس کا دل ایک تھا۔ لباس ایک تھا، اس کی زبان ایک تھی، اس کے
گیت ایک تھے۔ اس کی کھیت ایک تھے، اس کے کھیتوں کی رومانی فضا اور اس کے کسانوں کے
پنچائتی ولولے ایک تھے۔ پنجاب میں وہ سب باتیں موجود تھیں جو ایک تہذیب، ایک دیس،
ایک قومیت کے وجود کا احاطہ کرتی ہیں، پھر کس لئے اس کے گلے پر چھری چلائی گئی؟۔
’’نہیں
معلوم نہ تھا‘‘
’’ہمیں
بڑا افسوس ہے ‘‘
’’ہم
اس ظلم کی مذمت کرتے ہیں ‘‘۔
ظلم
اور نفرت اور مذہبی جنون کا بھڑکانے والے، پنجاب کی وحدت کو مٹا دینے والے آج مگر
مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں اور آج پنجاب کے بیٹے دلی کی گلیوں میں اور کراچی کے
بازاروں میں بھیک مانگ رہے ہیں اور ان کی عورتوں کی عصمت لٹ چکی ہو اور ان کے کھیت
ویران پڑے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں نے آج تک پنجابی
پناہ گزینوں کے لئے بیس کروڑ روپے صرف کئے ہیں یعنی فی کس بیس روپے بڑا احسان کیا
ہے۔ ہماری سات پشتوں پر۔ ارے ہم تو مہینے میں بیس روپے کی لسی پی جاتے ہیں اور آج
تم ان لوگوں کو خیرات دینے چلے ہو جو کل تک ہندوستان کے کسانوں میں سب سے زیادہ
خوش حال تھے۔ جمہوریت کے پرستارو ذرا پنجاب کے کسانوں سے، اس کے طالب علموں سے، اس
کے کھیت مزدوروں سے، اس کے دکان داروں سے، اس کی ماؤں، بیٹوں اور بہوؤں ہی سے پوچھ
تو لیا ہوتا کہ اس نقشے پر جو کالی لکیر لگ رہی ہے اس کے متعلق تمہارا کیا خیال
ہے؟ مگر وہاں فکر کس کو ہوتی کسی کا اپنا دیس ہوتا، کسی کا اپنا وطن ہوتا، کسی کی
اپنی زبان ہوتی، کسی کے اپنے گیت ہوتے تو وہ سمجھ سکتا کہ یہ غلطی کیا ہے اور اس
کا خمیازہ کسے بھگتنا پڑے گا۔
یہ
دکھ وہی سمجھ سکتا ہے جو ہیر کو رانجھے سے جدا ہوتے ہوئے دیکھے۔ جو سوہنی کو مہینوال
کے فراق میں تڑپتا دیکھے جس نے پنجاب کے کھیتوں میں اپنے ہاتھوں سے گیہوں کی سبز
بالیاں اُگائی ہوں اور اس کے کپاس کے پھولوں کے ننھے چاندوں کو چمکتا ہوا دیکھا
ہو، یہ سیاست داں کیا سمجھ سکتے اس دکھ کو جمہوریت کے سیاست داں تھے نا۔ خیر یہ
رونا مرنا رہتا ہے انسان کو انسان ہونے میں بہت دیر ہے اور پھر ایک ہیچمداں افسانہ
نگار کو ان باتوں سے کیا اسے زندگی سے۔ سیاست سے۔ علم و فن سے۔ سائنس سے تاریخو
فلسفے سے کیا لگاؤ۔ اسے کیا غرض کہ پنجاب مرتا ہے یا جیتا ہو۔ عورتوں کی عصمتیں
برباد ہوتی ہیں یا محفوظ رہتی ہیں۔ بچوں کے گلے پر چھری پھیری جاتی ہے یا ان پر
مہربان ہونٹوں کے بوسے ثبت ہوتے ہیں۔ اسے ان باتوں سے الگ ہو کر کہانی سنانا چاہیے۔
اپنی چھوٹی موٹی کہانی جو لوگوں کے دلوں کو خوش کر سکے یہ بڑے بول اسے زیب نہیں دیتے۔
ٹھیک
تو کہتے ہیں آپ، اس لئے اب امرتسر کی آزادی کی کہانی سنئے۔ اس شہر کی کہانی جہاں
جلیان والا باغ ہے۔ جہاں شمالی ہند کی سب سے بڑی تجارتی منڈی ہے۔ جہاں سکھوں کا سب
سے بڑا مقدس گرد وارہ ہے۔ جہاں کی قومی تحریکوں میں مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں نے
ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور اگر فرقے واری کا قلعہ ہے
تو امرتسر قومیت کا مرکز ہے۔ اسی قومیت کے سب سے بڑے مرکز کی داستان سنئے۔ 15اگست
1947ء کو امرتسر آزاد ہوا۔ پڑوس میں لاہور جل رہا تھا مگر امرتسر آزاد تھا اور اس
کے مکانوں، دکانوں بازاروں پر ترنگے جھنڈے لہرا رہے تھے، امرتسر کے قوم پرست
مسلمان اس جشن آزادی میں سب سے آگے تھے، کیونکہ وہ آزادی کی تحریک میں سب سے آگے
رہے تھے۔ یہ امرتسر اکالی تحریک ہی کا امرت سر نہ تھا یہ احراری تحریک کا بھی
امرتسر تھا۔ یہ ڈاکٹر ستیہ پال کا امرتسر نہ تھا یہ کچلو اور حسام الدین کا امرتسر
تھا، اور آج امرتسر آزاد تھا اور اس کی قوم پرور فضا میں آزاد ہندوستان کے نعرے
گونج رہے تھے اور امرتسر کے مسلمان اور ہندو اور سکھ یکجا خوش تھے۔ جلیان والا باغ
کے شہید زندہ ہو گئے۔ شام کو جب اسٹیشن پر چراغاں ہوا تو آزاد ہندوستان اور آزاد
پاکستان سے دو اسپیشل گاڑیاں آئیں۔ پاکستان سے آنے والی گاڑی میں ہندو اور سکھ
تھے۔ ہندوستان سے آنے والی گاڑی میں مسلمان تھے۔ تین چار ہزار افراد اس گاڑی میں
اور اتنے ہی دوسری گاڑی میں کل چھ سات ہزار افراد۔ بہ مشکل دو ہزار زندہ ہوں گے
باقی لوگ مرے پڑے تھے اور ان کی لاشیں سر بریدہ تھیں اور ان کے سر نیزوں پر لگا کے
گاڑیوں کی کھڑکیوں میں سجائے گئے تھے، پاکستان اسپیشل پر اردو کے موٹے موٹے حروف میں
لکھا تھا ’’قتل کرنا پاکستان سے سیکھو‘‘ ہندوستان اسپیشل میں لکھا تھا ہندی میں
’’بدلہ لینا ہندوستان سے سیکھو‘‘۔
اس
پر ہندوؤں اور سکھوں کو بڑا طیش آیا۔ ظالموں نے ہمارے بھائیوں کے ساتھ کتنا برا
سلوک کیا ہے۔ ہائے یہ ہمارے ہندو اور سکھ پناہ گزیں اور واقعی ان کی حالت بھی قابل
رحم تھی۔ انہیں فوراً گاڑی سے نکال کر پناہ گزینوں کے کیمپ میں پہنچایا گیا اور
سکھوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کی گاڑی پر دھاوا بول دیا یعنی اگر نہتے نیم مردہ
مہاجرین پر حملہ کو ’’دھاوا‘‘ کہہ سکتے ہیں تو واقعی یہ دھاوا تھا۔ آدھے سے زیادہ
آدمی مار ڈالے گئے۔ تب کہیں جا کر ملٹری نے حالات پر قابو پایا۔
گاڑی
میں ایک بڑھیا عورت بیٹھی تھی اور اس کی گود میں اس کا ننھا پوتا تھا۔ راستے میں
اس کا بیٹا مارا گیا اس کی بہو کو جاٹ اٹھا کر لے گئے تھے اس کے خاوند کو لوگوں نے
بھالوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ اب وہ چپ چاپ بیٹھی تھی۔ اس کے لبوں پر آہیں نہ
تھیں اس کی آنکھوں میں آنسو نہ تھے۔ اس کے دل میں دعا نہ تھی۔ اس کے ایمان میں قوت
نہ تھی۔ وہ پتھر کا بت بنی چپ چاپ بیٹھی تھی جیسے وہ کچھ سن نہ سکتی تھی کچھ دیکھ
نہ سکتی تھی کچھ محسوس نہ کر سکتی تھی۔
بچے
نے کہا ’’دادی اماں پانی‘‘
دادی
چپ رہی۔ بچہ چیخا ’’دادی اماں پانی‘‘
دادی
نے کہا ’’بیٹا پاکستان آئے گا تو پانی ملے گا؟‘‘
بچے
نے کہا ’’دادی اماں کیا ہندوستان میں پانی نہیں ہے؟‘‘
دادی
نے کہا ’’بیٹا اب ہمارے دیس میں پانی نہیں ہے‘‘۔
بچے
نے کہا ’’کیوں نہیں ہے؟ مجھے پیاس لگی ہے۔ میں تو پانی پیوں گا، پانی، پانی، پانی
دادی اماں پانی پیوں گا میں پانی پیوں گا‘‘۔
’’پانی
پیو گے؟‘‘ایک اکالی رضاکار وہاں سے گزر رہا تھا اس نے خشمگیں نگاہوں سے بچے کی طرف
دیکھ کے کہا۔ ’’پانی پیو گے نا؟‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’ہاں
‘‘بچے نے سر ہلایا۔
’’نہیں
نہیں ‘‘دادی نے خوفزدہ ہو کر کہا ’’یہ کچھ نہیں کہتا آپ کو، یہ کچھ نہیں مانگتا آپ
سے۔ خدا کے لئے سردار صاحب اسے چھوڑ دیجئے۔ میرے پاس اب کچھ نہیں ہے۔ ‘‘
اکالی
رضا کار ہنسا۔ اس نے پائیدان سے رستے ہوئے خون کو اپنی اوک میں جمع کیا اور اسے
بچے کے قریب لے جا کے کہنے لگا: ’’لو پیاس لگی ہے۔ تو یہ پی لو بڑا اچھا خون ہے
مسلمان کا خون ہے‘‘۔
دادی
پیچھے ہٹ گئی بچہ رونے لگا دادی نے بچے کو اپنے پیلے دوپٹے سے ڈھک لیا اور اکالی
رضاکار ہنستا ہوا آگے چلا گیا۔
دادی
سوچنے لگی کب یہ گاڑی چلے گی میرے اللہ پاکستان کب آئے گا؟
ایک
ہندو پانی کا گلاس لے کر آیا ’’لو پانی پلا دو اسے‘‘۔
لڑکے
نے اپنی بانہیں آگے بڑھائیں اس کے ہونٹ کانپ رہ تھے اس کی آنکھیں باہر نکلی پڑی تھیں۔
اس کے جسم کارواں رواں پانی مانگ رہا تھا۔
ہندو
نے گلاس ذرا پیچھے سرکا لیا۔ بولا ’’اس پانی کی قیمت ہے مسلمان بچے کو پانی مفت نہیں
ملتا۔ اس گلاس کی قیمت پچاس روپے ہے‘‘۔
’’پچاس
روپے‘‘ دادی نے عاجزی سے کہا ’’بیٹا میرے پاس تو چاندی کا ایک چھلا بھی نہیں ہے میں
پچاس روپے کہاں سے دوں گی‘‘۔
’’پانی،
پانی، پانی تو پانی مجھے دو، پانی کا گلاس مجھے دے دو، دادی اماں دیکھو یہ ہمیں
پانی پینے نہیں دیتا‘‘۔
’’مجھے
دو، مجھے دو‘‘ ایک دوسرے مسافر نے کہا ’’لو میرے پاس پچاس روپے ہیں ‘‘۔
ہندو
ہنسنے لگا ’’یہ پچاس روپے تو بچے کے لئے تھے، تمہارے لئے اس گلاس کی قیمت سو روپے
ہے سو روپے دو اور یہ پانی کا گلاس پی لو‘‘۔
’’اچھا
یہ سو روپیہ ہی لے لو یہ لو‘‘۔ دوسرے مسلمان مسافر نے سو روپیہ ادا کر کے گلاس لے
لیا۔ اور اسے غٹا غٹ پینے لگا۔
بچہ
اسے دیکھ کر اور بھی چلانے لگا ’’پانی، پانی، پانی دادی اماں پانی۔ ‘‘
ایک
گھونٹ اسے بھی دے دو، خدا اور رسول کے لئے‘‘۔ مسلمان کافر نے گلاس خالی کر کے اپنی
آنکھیں بند کر لیں، گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر جا گرا اور پانی کی چند
بوندیں فرش پر بکھر گئیں۔ بچہ گود سے اتر کر فرش پر چلا گیا۔ پہلے اس نے خالی گلاس
کو چاٹنے کی کوشش کی، پھر فرش پر گری چند بوندوں کو، پھر زور زور سے چلانے لگا۔
’’دادی اماں پانی، پانی‘‘۔ پانی موجود تھا اور پانی نہیں تھا۔ ہندو پناہ گزیں پانی
پی رہے تھے اور مسلمان پناہ گزیں پیاسے تھے۔ پانی موجود تھا اور مٹکوں کی قطاریں
اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر سجی ہوئی تھیں اور پانی کے نل کھلے تھے اور بھنگی آب دست
کے لئے پانی ہندو مسافروں کو دے رہے تھے۔ لیکن پانی نہیں تھا تو مسلمان مہاجرین کے
لئے کیونکہ پنجاب کے نقشے پر ایک کالی موت کی لکیر کھینچ گئی تھی اور کل کا بھائی
آج دشمن ہو گیا تھا اور کل جس کو ہم نے بہن کہا تھا آج وہ ہمارے لئے طوائف سے بھی
بدتر تھی اور کل جو ماں تھی آج بیٹے نے اس کو ڈائن سمجھ کر اس کے گلے پر چھری پھیر
دی تھی۔
پانی
ہندوستان میں تھا اور پانی پاکستان میں بھی تھا۔ لیکن پانی کہیں نہیں تھا کیونکہ
آنکھوں کا پانی مر گیا تھا اور یہ دونوں ملک نفرت کے صحرا بن گئے تھے اور ان کی
تپتی ہوئی ریت پر چلتے ہوئے کارواں بادِ سموم کی بربادیوں کے شکار ہو گئے تھے۔ پانی
تھا مگر سراب تھا۔ جس دیس میں لسی اور دودھ پانی کی طرح بہتے تھے، وہاں آج پانی نہیں
تھا اور اس کے بیٹے پیاس سے بلک بلک کر مر رہے تھے لیکن دل کے دریا سوکھ گئے تھے
اس لئے پانی تھا اور نہیں بھی تھا۔
پھر
آزادی کی رات آئی دیوالی پر بھی ایسا چراغاں نہیں ہوتا کیونکہ دیوالی پر تو صرف دئیے
جلتے ہیں۔ یہاں گھروں کے گھر جل رہے تھے۔ دیوالی پر آتش بازی ہوتی ہے، پٹاخے
پھوٹتے ہیں۔ یہاں بمب پھٹ رہے تھے اور مشین گنیں چل رہی تھیں۔ انگریزوں کے راج میں
ایک پستول بھی بھولے سے کہیں نہیں ملتا تھا اور آزادی کی رات نہ جانے کہاں سے اتنے
سارے بمب، ہینڈ گری نیڈ مشین گن اسٹین گن برین گن ٹپک پڑے۔ یہ اسلحہ جات برطانوی
اور امریکی کمپنیوں کے بنائے ہوئے تھے اور آج آزادی کی رات ہندوستان اور پاکستانیوں
کے دل چھید رہے تھے۔ لڑے جاؤ بہادرو، مرے جاؤ بہادرو، ہم اسلحہ جات تیار کریں گے
تم لوگ لڑو گے شاباش بہادرو، دیکھنا کہیں ہمارے گولہ بارود کے کارخانوں کا منافع
کم نہ ہو جائے۔ گھمسان کارن رہے تو مزا ہے۔ چین والے لڑتے ہیں تو ہندوستان اور
پاکستان والے کیوں نہ لڑیں۔ وہ بھی ایشیائی ہیں، تم بھی ایشیائی ہو۔ ایشیا کی عزت
برقرار رکھو۔ لڑے جاؤ بہادرو، تم نے لڑنا بند کیا تو ایشیا کا رخ دوسری طرف پلٹ
جائے گا اور پھر ہمارے کارخانوں کے منافع اور حصے اور ہماری سامراجی خوش حالی خطرے
میں پڑ جائے گی۔ لڑے جاؤ بہادرو پہلے تم ہمارے ملکوں سے کپڑا اور شیشے کا سامان اور
عطریات منگاتے تھے، اب ہم تمہیں اسلحہ جات بھیجیں گے اور بمب اور ہوائی جہاز اور
کارتوس کیونکہ اب تم آزاد ہو گئے ہو۔ مسلح ہندو اور سکھ رضا کار مسلمانوں کے گھروں
کو آگ لگا رہے تھے اور جئے ہند کے نعرے گونج رہے تھے۔ مسلمان اپنے گھروں کی کمیں
گاہوں میں چھپ کر حملہ آوروں پر مشین گنوں سے حملہ کر رہے تھے اور ہنڈ گری نیڈ پھینکتے
تھے۔
آزادی
کی رات اور اس کے تین چار روز بعد تک اس طرح مقابلہ رہا۔ پھر سکھوں اور ہندوؤں کی
مدد کے لئے آس پاس کی ریاستوں سے رضا کار پہنچ گئے اور مسلمانوں نے اپنے گھر خالی
کرنے شروع کئے، گھر، محلے، بازار جل رہے تھے۔ ہندوؤں کے گھر اور مسلمانوں کے گھر
اور سکھوں کے گھر، لیکن آخر میں مسلمانوں کے گھر سب سے زیادہ جلے اور آخر ہزاروں کی
تعداد میں مسلمان اکٹھے ہو کر شہر سے بھاگنے لگے۔ اس موقع پر جو کچھ ہوا اسے تاریخ
میں ’’امرتسر کا قتل عام‘‘ کہا جائے گا۔ لیکن ملٹری نے حالات پر جلد قابو پا لیا۔
قتل عام بند ہوا اور ہندو اور مسلمان دو مختلف کیمپوں میں بند ہو کر پناہ گزین
کہلانے لگے۔ ہندو شرنارتھی کہلاتے تھے اور مسلمان پناہ گزین مہاجرین گو مصیبت
دونوں پر ایک ہی تھی، لیکن ان کے نام الگ الگ کر دیئے تھے تاکہ مصیبت میں بھی یہ
لوگ اکٹھے نہ ملیں۔ دونوں کیمپوں پر نہ چھت تھی نہ روشنی کا انتظام تھا نہ سونے کے
لیے بستر تھے نہ پائخانے، لیکن ایک کیمپ ہندو اور سکھ شرنارتھیوں کا کیمپ کہلاتا
تھا دوسرا مسلمان مہاجرین کا۔
ہندو
شرنارتھیوں کے کیمپ میں آزادی کی رات کو شدید بخار میں لرزتی ہوئی ایک ماں اپنے بیمار
بیٹے کے سامنے دم توڑ رہی تھی، یہ لوگ مغربی پنجاب سے آئے پندرہ آدمیوں کا خاندان
تھا۔ پاکستان سے ہندوستان آتے صرف دو افراد رہ گئے تھے اور اب ان میں بھی ایک بیمار
تھا۔ دوسرا دم توڑ رہا تھا۔ جب یہ پندرہ افراد کا قافلہ گھر سے چلا تھا تو ان کے
پاس بستر تھے۔ سامان خورد و نوش تھا، کپڑوں سے بھرے ہوئے ٹرنک تھے، روپیوں کی پوٹلیاں
تھیں اور عورتوں کے جسموں پر زیور تھے۔ لڑکے کے پاس ایک بائیسکل تھی اور یہ سب
پندرہ آدمی تھے۔ گوجرانوالہ تک پہنچتے پہنچتے دس آدمی رہ گئے۔ پہلے روپیہ گیا، پھر
زیور، پھر عورتوں کے جسم۔ لاہور آتے آتے چھ آدمی رہ گئے، کپڑوں کے ٹرنک گئے اور
بستر بھی اور لڑکے کو اپنی بائیسکل کے چھن جانے کا بڑا افسوس تھا۔ اور جب مغلپورہ
سے آگے بڑھے تو صرف دو رہ گئے، ماں اور ایک بیٹا اور ایک لحاف جو دم توڑتی ہوئی
عورت لرزے کے بخار میں اس وقت اوڑھے ہوئے تھی۔ اس وقت آدھی رات کے وقت، آزادی کی
پہلی رات کو وہ عورت مر رہی تھی اور اس کا بیٹا چپ چاپ، اس کے سرہانے بیٹھا ہوا
بخار سے کانپ رہا تھا اور اس کی کٹ کٹی بندھی ہوئی تھی اور آنسو ایک مدت ہوئی ختم
ہو چکے تھے۔ اور جب اس کی ماں مر گئی تو اس نے آہستہ سے لحاف کو اس کے جسم سے الگ
کیا اور اسے اوڑھ کر کیمپ کے دوسرے کونے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک رضاکار
اس کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا۔ ’’وہ….ادھر….تمہاری ماں تھی، جو مر گئی ہے؟‘‘
’’نہیں
نہیں مجھے کچھ معلوم نہیں۔ وہ کون تھی۔ ‘‘
لڑکے
نے خوفزدہ ہو کر کہا۔ اور زور سے لحاف کو اپنے گرد لپیٹتے ہوئے بولا۔ ’’وہ میری
ماں نہیں تھی۔ یہ لحاف میرا ہے۔ یہ لحاف میرا ہے۔ میں یہ لحاف نہیں دوں گا۔ یہ
لحاف میرا ہے۔ ‘‘وہ زور زور سے چیخنے لگا۔ ’’’وہ میری ماں نہیں تھی۔ یہ لحاف میرا
ہے۔ میں اسے کسی کو نہ دوں گا۔ یہ لحاف میں ساتھ لایا ہوں، نہیں دوں گا، نہیں !‘‘
ایک
لحاف، ایک ماں، ایک مردہ انسانیت کے معلوم تھا کہ ایک دن اس نئی تثلیث کی کہانی بھی
مجھے آپ کو سنانی پڑے گی۔ ‘‘جب مسلمان بھاگے تو ان کے گھر لٹنے شروع ہو گئے۔ شاید
ہی کوئی شریف آدمی رہا ہو جس نے اس لوٹ میں حصہ نہ لیا ہو۔ آزادی کے تیسرے دن کی
بات ہے میں اپنی گائے کو گلی کے باہر نل پر پانی پلانے لے جا رہا تھا۔ بالٹی میرے
ہاتھ میں تھی۔ دوسرے ہاتھ میں گائے کے گلے سے بندھی ہوئی رسی تھی۔ گلی کے موڑ پر
پہنچ کر میں نے میونسپلٹی کے لپ دانے کھمبے سے گائے کو باندھ دیا اور نل کی جانب
بالٹی لیے مڑ گیا کہ بالٹی میں پانی بھر لاؤں، تھوڑی دیر کے بعد جب بالٹی بھر کے
لایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گائے غائب ہے! ادھر ادھر بہتیرا دیکھا لیکن گائے کہیں
نظر نہ آئی۔ یکایک میری نگاہ ساتھ والے مکان کے آنگن میں گئی، دیکھتا ہوں، تو گائے
آنگن میں بندھی کھڑی ہے۔ میں گھر میں گھسا۔
’’
کیا ہے بھئی، کون ہو تم؟ ‘‘ایک سردار صاحب نے نہایت خشونت سے کہا۔
میں
نے کہا۔ ’’میں ابھی اپنی گائے کو اس سے باندھ کر نل پر پانی لانے گیا تھا۔ یہ گائے
تو میری ہے سردار جی‘‘
سردار
جی مسکرائے۔ ’’ہلا! ہلابا کوئی گل نہیں۔ میں نے سمجھا کسی مسلمان کی گائے ہو۔ یہ
آپ کی گائے ہے تو پھر لے جائیے۔‘‘ اتنا کہہ کر انہوں نے گائے کی رسی کھول کر میرے
ہاتھ میں تھما دی۔
’’معاف
کرنا‘‘ میرے چلتے چلتے انہوں نے پھر کہا۔ ’’آپاں سمجھیا کسی مسلمان دی گائے ہے۔ ‘‘
میں
نے یہ واقعہ اپنے دوست سردار سندر سنگھ سے بیان کیا تو وہ بہت ہنسا۔ ’’بھلا اس میں
ہنسنے کی کیا بات ہو۔ ‘‘میں نے اس سے پوچھا تو وہ اور بھی زور زور سے ہنسنے لگا۔
سندر سنگھ میں آپ کو بتاؤں، اشتراکی ہے، اس لیے فرقہ وارانہ عناد سے بہت دور رہتا
ہے۔ وہ میرے ان چند احباب میں سے ہے جنہوں نے اس لوٹ مار میں بالکل کوئی حصہ نہیں
لیا۔ میں نے کہا۔ ’’تم اسے اچھا سمجھتے ہو۔؟‘‘وہ بولا ’’نہیں یہ بات نہیں ہے۔ میں
ہنس رہا تھا کیونکہ آج صبح ایک ایسا ہی واقعہ مجھے پیش آیا۔ میں ہال بازار میں سے
گزر رہا تھا کہ میں نے سوچا سامنے کٹرے میں سے سردار سویرا سنگھ جی کو دیکھتا
چلوں۔ پرانے غدر پارٹی کے لیڈر ہیں نا وہ۔ انہوں نے اپنے گاؤں میں تین چار سو
مسلمانوں کو پناہ دے رکھی ہو، سوچا پوچھتا چلوں، ان کا کیا ہوا۔ انہیں وہاں سے
نکال کر مہاجرین کے کیمپ میں لے جانے کی کیا سبیل کی جائے۔ یہ سوچ کر میں نے اپنی
گاڑی محمد رزاق جوتے والے کی دوکان (جواب لٹ چکی ہے) کے آگے گھڑی کی اور کٹرے میں
گھس گیا۔ چند منٹ کے بعد ہی لوٹ کر آ گیا۔ کیونکہ بابا جی گھر پر ملے نہیں۔ آ کے دیکھتا
ہوں تو گاڑی غائب ہے۔ ابھی تو یہیں چھوڑی تھی۔ پوچھنے پر بھی کسی نے نہیں بتایا۔
اتنے میں میری نظر حال بازار کے آخری کونے پر پڑی۔ وہاں میری گاڑی کھڑی تھی لیکن ایک
جیپ کے پیچھے بندھی ہوئی۔ میں بھاگا بھاگا وہاں گیا۔ جیپ میں سردار سنگھ مشہور قومی
کارکن بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا ’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’اپنے
گاؤں جا رہا ہوں۔ ‘‘
’’اور
یہ میری موٹر بھی کیا تمہارے گاؤں جائے گی؟‘‘
’’کون
سی موٹر؟‘‘
’’وہ
جو پیچھے بندھی ہوئی ہے؟‘‘
’’یہ
تمہاری موٹر ہے؟ معاف کرنا پیارے، میں نے پہچانی نہیں۔ وہ محمد رزاق کی دوکان کے
سامنے کھڑی تھی نا۔ میں نے سوچا کسی مسلمان کی ہو گی۔ میں نے جیپ کے پیچھے باندھ لیا۔
ہا ہا ہا۔ میں تو اسے اپنے گھر لے جا رہا تھا۔ اچھا ہوا کہ تم وقت پر آ گئے۔ ‘‘
’’اور
اب کہاں جاؤ گے؟ ‘‘ میں نے اپنی موٹر کھول کر اس میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’اب؟
اب کہیں اور جاؤں گا۔ کہیں نہ کہیں سے کوئی مال مل ہی جائے گا۔ ‘‘سردار سنگھ قومی
کارکن ہیں۔ جیل جا چکے ہیں۔ جرمانے ادا کر چکے ہیں۔ سیاسی آزادی کے حصول کے لیے
قربانیاں دے چکے ہیں۔ یہ واقعہ سنا کر سندر سنگھ نے کہا۔ بروبا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس حد تک
پھیل گئی ہے کہ ہمارے اچھے اچھے قومی کارکن بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ ہماری سیاسی
جماعتوں میں کام کرنے والے طبقے کا ایک جزو خود اس لوٹ مار قتل و غارت گری میں شریک
ہو۔ اس کو روکو اگر اسی وقت روکا نہ گیا تو دونوں جماعتیں فسطائی ہو جائیں گی۔ یہی
کوئی دو چار سال ہی ہیں۔ سندر سنگھ کا چہرہ متفکر دکھائی دے رہا تھا۔ میں وہاں سے
اُٹھ کر چلا آیا۔ راستے میں خالصہ کالج روڈ پر ایک مسلمان امیر کی کوٹھی لوٹی جا
رہی تھی۔ اسباب کے لدے ہوئے چھکڑے مختلف گروہ لے جا رہے تھے۔ میرے دیکھتے دیکھتے
چند منٹوں میں سب معاملہ ختم ہو گیا۔ سڑک پر چلنے والے ہندو اور سکھ راہ گیر بھی
کوٹھی کی طرف بھاگے لیکن پولیس کے سپاہیوں کو وہاں سے نکلتے دیکھ کر ٹھٹھک گئے۔
پولیس کے سپاہیوں کے ہاتھوں میں چند جرابیں تھیں اور ریشمی ٹائیاں۔ ایک کوٹ ہینگر
پر مفلر پڑا ہوا تھا۔ انہوں نے مسکرا کر لوگوں سے کہا۔ ’’اب کہاں جاتے ہو۔ وہاں تو
سب کچھ پہلے ہی ختم ہو چکا۔‘‘
ایک
مہاشے جو شکل و صورت سے آریہ سماجی معلوم ہوتے تھے اور میرے سامنے ہی کوٹھی کی طرف
بھاگے تھے، اب مڑ کر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے۔ ’’دیکھئے صاحب۔ دنیا کیسی پاگل ہو
گئی ہے۔ ‘‘
میرے
قریب سے ایک دودھ بیچنے والا بھیا گزرا، بیچارے کے حصے میں چند کتابیں آئی تھیں وہ
انہیں لیے جا رہا تھا۔ میں نے پوچھا۔ ’’ان کتابوں کا کیا کرو گے۔ پڑھ سکتے ہو۔؟‘‘
’’نا
بابو جی‘‘۔ ۔ ۔ ۔
’’پھر؟‘‘
اس
نے کتابوں کی طرف غصے سے دیکھا۔ بولا۔ ’’ہم کیا کریں بابو۔ جدھر جاتے ہیں لوگ پہلے
ہی اچھا اچھا سامان اٹھا لے جاتے ہیں۔ ہماری تو قسمت خراب ہے بابو‘‘
اس
نے پھر کتابوں کو غصے سے دیکھا، اس کا ارادہ تھا۔ انہیں یہیں سڑک پر پھینک دے۔ پھر
اس کا ارادہ بدل گیا۔ وہ مسکرا کر کہنے لگا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ یہ موٹی موٹی کتابیں
چولہے میں خوب جلیں گی۔ رات کے بھوجن کے لیے لکڑیوں کی ضرورت نہیں !‘‘بڑی اچھی
کتابیں تھیں۔ سب چولہے میں گئیں۔ ارسطو، سقراط، افلاطون، روسو، شیکسپیئر، سب چولہے
میں گئے۔
سہ
پہر کے قریب بازار سنسان پڑنے لگے، کرفیو ہونے والا تھا۔ میں جلدی جلدی کوچہ رام
داس سے نکلا اور مقدس گوردوارے کو تعلیم دیتا ہوا اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔ راستے
میں اندھیری گلی پڑتی ہے۔ جہاں جلیاں والے باغ کے روز لوگوں کو گھٹنوں کے بل چلنے
پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ میں نے سوچا میں اس گلی سے کیوں نہ نکل جاؤں۔ یہ راستہ
ٹھیک رہے گا۔ میں اسی گلی کی طرف گھوم گیا۔ یہ گلی تنگ ہے اور یہاں دن کو بھی اندھیرا
سا رہتا ہے۔ یہاں مسلمانوں کے آٹھ دس گھر تھے وہ سب جلائے گئے تھے یا لوٹے گئے
تھے، دروازے کھلے تھے، کھڑکیاں ٹوٹی ہوئیں، کہیں کہیں چھتیں جلی ہوئی، گلی میں
سناٹا تھا، گلی کے فرش پر عورتوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ میں پلٹنے لگا، اتنے میں کسی
کے کراہنے کی آواز آئی، گلی کے بیچ میں لاشوں کے درمیان ایک بڑھیا رینگنے کی کوشش
کر رہی تھی۔ میں نے اسے سہارا دیا۔
’’پانی۔
بیٹا‘‘ میں اوک میں پانی لایا۔ مقدس گوردوارے کے سامنے پانی کا نل تھا۔ میں نے اپنی
اوک اس کے ہونٹوں سے لگا دی۔
’’تم
پر خد اکی رحمت ہو بیٹا! تم کون ہو؟خیر تم جو کوئی بھی ہو تم پر خدا کی رحمت ہو بیٹا۔
یہ ایک مرنے والی کے الفاظ ہیں۔ انہیں یاد رکھنا۔ ‘‘
میں
نے اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں کہا چوٹ آئی ہے ماں؟‘‘
بڑھیا
کہا۔ ’’مجھے مت اٹھاؤ۔ میں یہیں مروں گی۔ اپنی بہو بیٹیوں کے درمیان۔ کیا کہا تم
نے، چوٹ۔ ارے بیٹا یہ چوٹ بہت گہری ہے۔ یہ گھاؤ دل کے اندر ہی بہت گہر اگھاؤ ہے۔
تم لوگ اس سے کیسے پنپ سکو گے؟ تمہیں خدا کیسے معاف کرے گا؟‘‘
’’ہمیں
معاف کر دو ماں ‘‘
مگر
بڑھیا نے کچھ نہیں سنا۔ وہ آپ ہی آپ کہتی جا رہی تھی۔ ’’پہلے انہوں نے ہمارے مردوں
کو مارا۔ پھرے ہمارے گھر لوٹے۔ پھر ہمیں گھسیٹ کر گلی میں لے آئے، اور اس گلی میں
اس فرش پر۔ اس مقدس گوردوارے کے سامنے جس میں ہر روز تعلیم دی جاتی تھی انہوں نے
ہماری عصمت دری کی اور پھر ہمیں گولی سے مار دیا۔ میں تو ان کی دادیوں کے ہم عمر
تھی، انہوں نے مجھے بھی معاف نہیں کیا۔ ‘‘
یکایک
اس نے مجھے آستین سے پکڑ لیا۔ ’’تو جانتا ہے یہ امرتسر کا شہر ہے۔ یہ میرا شہر ہے۔
اس مقدس گوردوارے کو میں روز سلام کرتی تھی۔ جیسے اپنی مسجد کو روز سلام کرتی ہوں،
میری گلی میں ہندو مسلمان سکھ بھی بستے ہیں اور کئی پشتوں سے ہم لوگ یہاں بستے چلے
آئے ہیں اور ہم ہمیشہ ہمیشہ محبت سے اور پیار سے اور صلح سے رہے اور کبھی کچھ نہیں
ہوا۔ ‘‘
’’میرے
ہم مذہبوں کو معاف کرو اماں ‘‘
’’تو
جانتا ہے میں کون ہوں؟ میں زینب کی ماں ہوں، تو جانتا ہے زینب کون تھی؟ زینت وہ
لڑکی تھی جس نے جلیانوالے روز اس گلی میں گورے کے آگے سر نہیں جھکایا۔ جو اپنے ملک
اور اپنی قوم کے لیے سر اونچا کیے اس گلی میں سے گزر گئی۔ یہی وہ گلی ہے۔ یہی وہ
جگہ ہے جہاں زینب شہید ہوئی تھی۔ میں اسی زینب کی ماں ہوں۔ میں ایسی آسانی سے
تمہارا پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہوں۔ مجھے سہارا دو۔ مجھے کھڑا کر دو، میں اپنی لٹی
ہوئی آبرو اور اپنی بہو بیٹیوں کی برباد عصمتیں لے کر سیاست دانوں کے پاس جاؤں گی۔
مجھے سہارا دو۔ میں ان سے کہوں گی میں زینب کی ماں ہوں۔ میں امرتسر کی ماں ہوں، میں
پنجاب کی ماں ہوں، تم نے میری گود اُجاڑی ہے۔ تم نے بڑھاپے میں میرا منہ کالا کیا
ہے۔ میری جوان جہاں بہوؤں اور بیٹیوں کی پاک و صاف روحوں کو جہنم کی آگے میں
جھونکا ہے۔ میں ان سے پوچھوں گی کہ کیا زینب اسی آزادی کے لیے قربان ہوئی تھی؟ میں
….زینب کی ماں ہوں !‘‘
یکایک
وہ میری گود میں جھک گئی۔ اس کے منہ سے خون اُبل پڑا۔ دوسرے ہی لمحے میں اس نے جان
دے دی۔
زینب
کی ماں میری گود میں مری پڑی تھی اور اس کا لہو میری قمیض پر ہے اور میں زندگی سے
موت کے دروازے پر جھانک رہا ہوں اور تخیل میں صدیق اور اوم پرکاش اُبھرے چلے آتے ہیں
اور زینب کا غرور کا سر فضا میں ابھرتا چلا آتا ہے اور شہید مجھ سے کہتے ہیں کہ ہم
پھر آئیں گے، صدیق، اوم پرکاش ہم پھر آئیں گے۔ شام کور، زینب، پارو بیگم ہم پھر آئیں
گے اپنی عصمتوں کا تقدس لیے ہوئے اپنی بے داغ روحوں کا عزم لیے ہوئے کیونکہ ہم
انسان ہیں۔ ہم اس ساری کائنات میں تخلیق کے علم بردار ہیں اور کوئی تخلیق کو مار
نہیں سکتا۔ کوئی اس کی عصمت دری نہیں کر سکتا۔ کوئی اسے لوٹ نہیں سکتا کیونکہ ہم
تخلیق ہیں اور تم تخریب ہو۔ تم وحشی ہو، تم درندے ہو، تم مر جاؤ گے لیکن ہم نہیں
مریں گے کیونکہ انسان کبھی نہیں مرتا، وہ درندہ نہیں ہے وہ نیکی کی روح ہے، خدائی
کا حاصل ہے۔ کائنات کا غرور ہے۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment