ہَم
نے اپنی خوشی کوبیچ دیا
چشم
ساقی كے اک اشارے پہ
عمر
کی تشنگی کو بیچ دیا
رند
جام و سبو پہ ہنستے ہیں
شیخ
نے بندگی کو بیچ دیا
راہ
گزاروں پہ لٹ گئی رادھا
شام
نے بانسری کو بیچ دیا
جگمگاتے
ہیں وحشتوں کے دیار
عقل
نے آدمی کو بیچ دیا
لب
ورُخسار کے عِوض ہم نے
سطوتِ
خسروِی کو بیچ دیا
عشق
بہروپیا ہے اے ساغر
روپ
نے سادگی کو بیچ دیا
ساغر
صدیقی
No comments:
Post a Comment