حدیثِ
زندگی دہرائیے، برسات کے دن ہیں
سفینہ
لے چلا ہے کس مخالف سمت کو ظالم
ذرا
ملّاح کو سمجھائیے، برسات کے دن ہیں
کسی
پُر نور تہمت کی ضرورت ہے گھٹاؤں کو
کہیں
سے مہ وشوں کو لائیے، برسات کے دن ہیں
طبیعت
گردشِ دوراں کی گھبرائی ہوئی سی ہے
پریشاں
زلف کو سلجھائیے، برسات کے دن ہیں
بہاریں
ان دنوں دشتِ بیاباں میں آتی ہیں
فقیروں
پر کرم فرمائیے، برسات کے دن ہیں
یہ
موسم شورشِ جذبات کا مخصوص موسم ہے
دل
ناداں کو بہلائیے، برسات کے دن ہیں
سہانے
آنچلوں کے ساز پر اشعار ساغر کے
کسی
بے چین دھن میں گائیے، برسات کے دن ہیں
ساغر
صدیقی
No comments:
Post a Comment