☆__چاند سی بہو__☆
(مکمل ناول)
اسلام
علیکم،،فرخندہ بیگم نے دروازہ کھولا تو کالونی کی بزرگ خاتون جنھیں سب عزت اور
احترام سے بے جی کہتے تھے،نے اندر آتے ہوئے سلام کیا،
وعلیکماسلام
بے جی۔۔۔۔۔
کیسی
ہیں آپ؟
فرخندہ
نے پوچھا،
بس
بیٹا اب تو بڑھاپا آگیا ہے،کبھی ٹھیک ہوئے تو کبھی بیمار۔۔۔۔۔
بے
جی نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے جواب دیا،
اندر
آ کر بے جی تو بیٹھ گئیں جبکہ فرخندہ ان کے لئے چائے کا بندوبست کرنے کچن میں چلی
گئیں،
اس
کے بعد چائے اور باتوں کا دور چلتا رہا جبھی بے جی نے پوچھا،
قاسم
بیٹے کے رشتے کا کیا بنا؟
کوئی
لڑکی پسند آئی؟
بے
جی کے اس سوال پر فرخندہ نے ٹھنڈی آہ بھری،
کیا
کروں بے جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے بیٹے کے لئے تو جیسے لڑکیوں کا کال پڑھ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔
کب
سے رشتے دیکھ رہی ہوں مگر مجال ہے میرے بیٹے کی جوڑ کی کوئی لڑکی مل جائے مجھے
۔۔۔۔۔۔
برامت
منانا فرخندہ مگر تمہارے مطالبات بھی تو بہت زیادہ ہیں،
تمہیں
بھی تو اونچے گھرانے کی خوبصورت لڑکی چائیے
اپنے
جیسوں میں تو تم رشتہ کرنے کو راضی ہی نہیں ہو،
خیر
اب ایسی بھی بات نہیں ہے بے جی،لڑکی بہت امیر نہ بھی ہو تب بھی کم از کم خوبصورت
تو ہو،
چاند
سی بہو چائے مجھے میرے بیٹے کے جوڑ کی،
قاسم
میرا اکلوتا بیٹا ہے ظاہر ہے اس کی شادی کے لئے میرے دل میں بھی کچھ ارمان ہیں ،
ہر
ماں کے دل میں ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میرے مطالبات بہٹ زیادہ ہیں
،
فرخندہ
نے تو وجہ پیش کی بے جی ابھی جواب دینے ہی لگی تھیں جب فرخندہ دوبارہ بولیں،
خیر
اگر آپکی نظر میں کوئی لڑکی ہے تو آپ ہی بتائیے۔۔۔
آپ
کی تو کافی جان پہچان بھی ہے۔۔۔۔۔'''
فرخندہ
کی یہ بات سن کر بے جی نے اپنی پچھلی بات دل میں ہی رہنے دی اور جواب دیا،
ہاں
ایک بہت پیاری بچی ہے جسے میں جانتی ہوں بلکہ اس کے تو پورے گھر سے جان پہچان ہے
انعم نام ہے اس بچی کا اگر تم کہو تو بات کروں اسکی ماں سے،
ارے
بے جی آپ جانتی ہیں تو ضرور بات کریں اور جلدازجلد کریں۔۔۔۔۔۔
آپ
کا میل جول تو ویسے بھی بہت اچھے لوگوں ہوتا ہے مجھے یقین ہے اس بار بات بن ہی
جائے گی،
فرخندہ
تو جیسے خوشی سے نہال ہو گئی تھیں
☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆
انعم
بیٹا کیا کر رہی ہو؟
عالیہ
بیگم نے انعم کے کمرے میں جھانکا تو وہ مصروف نظر آئی،
کچھ
نہیں امی بس یہ وال پنیئٹنگ مکمل کر رہی تھی۔۔کوئی کام تھا؟
ایک
تو تم اور تمہارے ڈیکور کے انوکھے شوق عالیہ نے مسکراتے ہوئے کہا،
کام
تو کوئی نہیں تھا بیٹا بس یہ بتانا تھا کہ اس اتوار بے جی کی جاننے والی خاتون تمہیں
دیکھنے آ رہی ہیں،
یہ
بات سن کر انعم کے چہرے کی مسکراہٹ کہیں غائب ہو گئی تھی،
اس
کی امی اسے فرخندہ کی آمد کا بتا کر فوراچلی گئی تھیں،
ماں
اور بیٹی،دونوں ہی میں حوصلہ نہیں تھا کہ وہ اس موضوع پر بات کرتے۔۔۔۔۔
بیس
سال کی عمر سے اس کے رشتے آرہے تھے اور اب وہ ستائیس کی ہو چکی تھی،
سات
سال سے مسلسل خود کو لوگوں کے سامنے ایک شو پیس کی طرح پیش کرنا خاصہ تکلیف دہ عمل
تھا،
اب
تو اس کے ماں باپ بھی شاید مایوس ہو گئے تھے،
رشتے
آنا بھی کم ہو گیا تھا،
اپنے
گھر والوں کے پریشان حال چہروں سے بچنے کے لئے ٹھکرائے جانے کے درد کو کم کرنے کے
لئے اس نے خود کو بہت سی سرگرمیوں میں مصروف کر لیا تھا،
اور
اب ایک بار پھر سے ویسا ہی امتحان۔۔۔۔۔ اس نے منہ سے ایک گہری سانس خارج کی اور سر
جھنک کر دوبارہ پینٹنگ کی طرف متوجہ ہو گئی،
☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆
بس
بھائی اب تو آپ انعم بیٹی کو بلا دیں،" فرخندہ چائے کے لوازمات کے ساتھ پورا
پورا انصاف کرتے ہوئے بولیں،
عالیہ
نے اثبات میں سر ہلایا اور انعم کو لینے ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئیں۔۔۔۔
بے
جی بھی وہیں بیٹھی تھیں،چند ہی لمحوں میں نروس سی انعم اپنی ماں کے ہمراہ کمرے میں
داخل ہوئی۔۔۔
سلیقے
سے بال بنا کر دوپٹہ سر پے لے رکھا تھا،آنکھوں میں وہی اداسی اور ٹھکرائے جانے کا
خوف تھا۔۔۔۔
اس
نے آہستہ سے سلام کیا اور اپنی ماں کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی،فرخندہ بیگم کو انعم
کو دیکھ کر اچھو لگتے لگتے رہ گیا تھا۔۔۔۔انہوں نے بے دلی سے چائے کا کپ میز پہ
رکھ دیا،
بے
جی نے فرخندہ کے ایسے رویے کو دیکھتے ہوئے بے چینی سے پہلو بدلا،
فرخندہ
کچھ دیر تو خاموش رہیں پھر کچھ دیر بعد ہنکارہ بھرتے ہوئے بولیں،
تو
یہ انعم ہے۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔۔"وہی فرخندہ جو کچھ دیر پہلے انعم بیٹی انعم بیٹی کر
رہی تھیں وہی اب خاموش بیٹھی تھیں، اب کے بولیں تو ان کے لہجے کی گرم جوشی بھی
منقود تھی،
بے
جی کہہ رہی تھیں کہ آپ کی بیٹی ماشاءاللہ سے بہت پیاری ہے،
ان
کے لہجے کی کاٹ۔۔۔۔۔۔انعم نے پل بھر کو ذلت کے احساس سے اپنی آنکھیں بند کر لی پھر
دوبارہ سر اٹھا کر بے بسی سے اپنی ماں کو دیکھا،
عالیہ
نے بیٹی سے نگاہیں چرالی، انعم کے ابا کا بھی سر جھک گیا،
ماں
اور باپ کی مجبوری اور بے بسی دیکھ کر اس کا دل چاہا کہ وہ اس جگہ سے کہیں دور چلی
جائے۔۔۔۔۔
فرخندہ
کے چند الفاظ سے ہی سب سمجھ گئے تھے کہ انکا جواب کیا ہو گا،
جس
کرب اور دکھ سے وہ سب اس لمہے گزرے تھے فرخندہ کو اس کا احساس تک نہیں ہوا تھا،
آخر
وہ بیٹے کی ماں تھیں نا،کچھ دیر بعد فرخندہ اکیلی ہی بہانے سے اٹھ کر واپس چلی گئیں،
بے
جی البتہ وہیں رکی رہیں۔۔۔۔ فرخندہ کے جانے کے بعد بھی سب ویسے ہی خاموش اور مغموم
بیٹھے تھے،۔
میں
معزرت خواہ ہوں بیٹا،میرا مقصد تمہیں تکلیف پہنچانا ہرگز نہیں تھا،
بے
جی نے نہایت افسوس کے ساتھ انعم سے معزرت کی انعم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے
وہ تیزی سے اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔۔۔۔۔
اس
کے جاتے ہی عالیہ بھی رودی تھیں،
میری
بیٹی نے تو کبھی کسی کے ساتھ برا نہیں کیا بے جی،
تو
ہمیشہ لوگ اسی کا دل کیوں دکھا جاتے ہیں؟
کیا
یہ دنیا اتنی مادیت پرست اور مصنوعی ہوگئی ہے بے جی کہ انسان کا خوبصورت ہونا باقی
تمام خوبیوں پر بھاری ہونے لگا ہے؟
شاید
دنیا واقعی مادہ پرست ہو گئی ہے مگر اللہ دیکھ رہا ہے۔۔۔۔ وہ ان تمام مادہ پرست
لوگوں میں موجود کسی نیک صفت انسان کو ضرور بھیجے گا جو ہماری بچی کو اسکی خوب سیرتی
کی بنا پر قبول کرے گا،۔۔۔۔۔
تم
بس اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو۔۔۔۔۔
بے
جی نے عالیہ کو گلے لگاتے ہوئے جواب دیا،
☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆
خدا
کا خوف کریں بے جی آپ نے تو مجھے کہا تھا کہ انعم بہت پیاری بچی ہے،
جبکہ
وہ پکے رنگ کی چھوٹے قد کی لڑکی ہے۔۔۔۔۔
آپ
مجھے رشتہ بتانے سے پہلے کم از کم خود ہی ایک بار یہ بات سوچ لیتیں کہ اس کا قاسم
کے ساتھ کوئی جوڑ بھی ہے یا نہیں۔۔۔۔
اسی
شام فرخندہ نے بے جی کو فون کیا تھا اور ان پر برس پڑی تھیں،
کہا
میرا شہزادوں جیسا بیٹا اور کہا وہ کلموہی۔۔۔۔۔غضب خدا کا۔۔۔۔۔۔ میں نے تو سوچا
تھا کہ کوئی حور پری ہو گی،
آخر
آپ نے اس کی اتنی تعریف کی تھی، میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ اور کچھ ہو یا نہ ہو
کم از کم خوبصورت لڑکی تو ہو،
قاسم
کے ساتھ سوسائٹی میں چل تو سکے، مجھے اپنے بیٹے کے لئے چاند سی بہو چائیے،
فرخندہ
بے جی کو کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر بس اپنی سنا رہی تھی، بے جی چاہ کر بھی انھیں
روک نہیں سکیں،
اپنے
بیٹے کے لئے چاند سی بہو ڈھونڈتے ڈھونڈتے انہوں نے انعم کو اچھا خاصارگیدڈالا تھا،
انعم
نہ تو کوئی کلموہی تھی اور نہ ہی اسکا قد کم تھا،
حقیقتاوہ
سانولے رنگ اور درمیانے قد کی تھی۔۔۔۔۔۔
جس
طرح عموما لڑکیوں کا ہوتا ہے۔۔۔ مگر ایک اکلوتے خوبرو سول انجنئیر نوجوان کی ماں
کے نزدیک انعم جیسی لڑکیاں بدصورت ہی ہوتی ہیں۔۔۔۔
☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆
سوچ
رہی ہوں کہ وقاص کی شادی ہو جانی چائیے اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماشاءاللہ سے 28 سال کا ہو گیا
ہے۔۔۔
ابھی
رشتے دیکھناشروع کروں گی تب ہی کوئی لڑکی ملے گی اور سال دو سال تک شادی کر سکیں
گے،
عائشہ
اپنے شوہر سے گویا ہوئیں،
ہاں
ضرور اب تو اس کی جاب بھی بہترین ہے اور پھر شادی کے کئے یہی عمر مناسب ہے۔۔۔۔۔
میں
اکیلی کیوں؟۔۔۔آپ بھی تو اس کام میں میری مدد کریں گے نا۔۔۔۔۔
ارے
نہیں بھئی یہ تو خالصتاتم عورتوں کے کام ہیں۔۔۔
البتہ
ایک بات کہنا چاہتا ہوں اسے تم میری درخواست سمجھو یا حکم، کسی معصوم نیک فطرت بچی
کو اس لئے مت ٹھکرا دینا کہ وہ خوبصورت نہیں ہے۔۔۔
انہوں
نے قطعی لہجے میں اپنی بیوی سے کہا،
مگر
علی کچھ تو اچھی شکل و صورت ہونی چائیے نا۔۔۔
سوسائٹی
میں بھی موو کرنا ہوتا ہے وہ حیرت سے بولیں۔۔۔
کیوں
کسی معصوم بچی کی آہ لینا چاہتی ہو عائشہ بیگم
یہ
مت بھولیے کہ آپ بھی ایک بیٹی کی ماں ہیں۔۔۔
آج
آپ کسی کی بیٹی کو ٹھکرایں گی کل کوئی ایسے ہی آپ کی بیٹی کو ٹھکرائے گا۔۔
اللہ
نہ کرے کہ کوئی میری بیٹی کو ٹھکرائے۔۔۔۔۔ ویسے بھی میری بیٹی میں کوئی کمی تھوڑی
ہے۔۔۔۔
عائشہ
نے اپنے دل میں آنے والے خدشات کو دباتے ہوئے کہا۔۔
اس
کے بعد ان کے شوہر نے جوبات کہی وہ انہیں ہمیشہ کے لیے سمجھ آ گئی تھی۔۔۔۔
ہر
لڑکی کے ماں باپ اپنی بیٹی کی ایسی ہی بہترین تربیت کرتے ہیں۔۔۔
کسی
بھی لڑکی میں کوئی کمی نہیں ہوتی بالکل اسی طرح جس طرح آپکی بیٹی میں کوئی کمی نہیں
ہے۔۔۔۔خوبصورتی اور دولت اللہ کی دین ہے۔۔۔۔۔۔آج اس رب نے عطا کی ہے کل لے بھی
سکتا ہے۔۔۔۔۔کسی بھی لڑکی کی پہچان اس کی خوبصورتی سے نہیں اسکی خوب سیرتی سے ہوتی
ہے۔۔۔۔
اس
کا اخلاق بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ رویہ اسکی زبان اور اسکا روشن کھلا دل اس بات کا
تعین کرتا ہے کہ وہ کتنی خوبصورت ہے۔۔۔۔
سوسائٹی
کا کیا ہے؟
لوگ
تو ہر حال میں باتیں بنائے گے۔۔۔۔۔۔دنیا مادیت پرست ہو گی تو کیا آپ بھی صرف اس لیے
انکی اندھی تقلید کریں گی کہ ان کے سامبے سر اٹھا سکیں،؟؟؟؟
پھر
آخرت میں اللہ کے سامنے شرمندگی سے سر جھکا کر کھڑا ہونا پڑے گا،۔۔۔۔۔۔
اس
مصنوعی دنیا میں آپ ہی نیکی کا پہلا قدم اٹھا لیجیے۔۔۔۔۔کون جانے کے آپ کے ایسا
کرنے سے اور کتنوں کو راستہ مل جائے اور آپ کی اپنی بیٹی سمیت کتنی بیٹیوں کے گھر
بس جائیں۔۔۔"""
☆_☆_☆_☆_☆_☆
فرخندہ
اس وقت کرن کے ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھیں۔،
وہ
آج شادی کی تاریخ پکی کرنے آئیں تھیں ،کرن ان کے ہونے والی بہو بالکل ویسی ہی تھی
جیسی وہ چاہتی تھیں، خوبصورت امیر پڑھی لکھی بولڈ اور ماڈرن جس کا قاسم کے ساتھ
بہتریں جوڑ بنتا تھا،
وہ
ان کی چاند سی بہو والی تمام خصوصیات پر پورا اترتی تھی،
اس
لیے انہوں نے چٹ منگنی پٹ بیاہ والا کام کیا تھا،اور آج شادی کی تاریخ طے ہوجانے
کے بعد وہ ہواوں میں اڑرہی تھیں،
کیونکہ
کہ ان کے حلقہ احباب میں کسی کی بھی بہو اتنی خوبصورت اور امیر نہیں تھی۔۔۔۔۔۔
☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆
انعم
کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ آخرکار اسکی شادی ہو رہی ہے۔۔۔۔۔اسے یاد تھا کہ جب امی
نے اسے عائشہ آنٹی کی آمد کا بتایا تھا تو کیسے اس نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا
تھا اور اپنی ماں کے گلے لگ کر گھنٹوں روتی رہی تھی کہ اس میں اب اور سکت نہیں تھی،،
سات
سال کے مسلسل انکار نے اسے جیسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔
اب
جب وہ اور اس کے ماں باپ ساری امید کھو بیٹھے تھے تب وقاص کے گھر والے جیسے فرشتہ
بن کر آئے تھے،
کم
از کم اسے تو فرشتہ ہی لگے تھے۔۔۔جب ہر انسان اسکی اچھائی کو چھوڑ کر اسکی کم صورتی
کی وجہ سے اسے رد کر رہا تھا،
وہیں
عائشہ آنٹی نے فورااسے یہ کہہ کر پسند کر لیا تھا کہ انہیں نیک اور شریف بچی چائیے۔۔۔۔کیا
ابھی بھی دنیا میں ایسے لوگ بستے تھے۔۔۔وقاص میں کوئی کمی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔جوان
اچھی جاب اچھی فیملی۔۔۔۔اس کے باوجود اسے قبول کر لیا گیا تھا۔۔۔۔وہ یقین کرتی بھی
تو کیسے کرتی۔۔۔۔۔شادی سے بہت پہلے ہی اس کے دل میں وقاص اور اسکی فیملی کے لیے پیار،عزت
احترام سے بھر گیا تھا۔۔۔۔۔۔،
☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆
انعم
،انعم بیٹا کہاں ہو؟؟عائشہ نے اسے آواز دی،
جی
امی آپ نے بلایا۔۔۔۔۔۔کوئی کام تھا؟؟؟
کیا
کر رہی ہو بیٹا۔۔۔۔۔۔تم نظر نہیں آئی تو میں نے آواز دے دی۔۔۔آو زرا ہم دونوں ماں
بیٹی بیٹھ کے باتیں کریں۔۔۔
میں
ابو اور وقاص کے کپڑے استری کر رہی تھی امی۔۔
بس
پانچ منٹ میں آتی ہوں۔۔۔پھر چائے بھی پئیں گے اور باتیں بھی کریں گے۔۔۔۔انعم نے
مسکراتے ہوئے جواب دیا،
پھر
یہ بتاو کے رات کے کھانے میں کیا بنانے کا ارادہ ہے؟
تم
جب تک کپڑے استری کرو گی تب تک میں اسکی تیاری کر لوں گی،
میں
سوچ رہی تھی کہ آج مٹر پلاو بنالوں سب کو پسند ہے۔۔۔۔۔ساتھ میں کباب اور رائتہ ہو
جائے گا،
ہاں
یہ ٹھیک رہے گا،
چلو
تم کپڑے استری کر لو جب تک میں مٹر نکال لوں اور چاول صاف کر لوں،
انہوں
نے پیار سے کہا،انعم نے اثبات میں سر ہلایا اور ٹھیک ہے کہہ کر واپس چلی گئی تو
عائشہ نے اطمینان اور سکون سے آنکھیں موند لیں،
ان
کے شوہر کے ایک فیصلے نے سب کی زندگیوں کو پر سکون کر دیا تھا،
وہ
سانولی تھی چھوٹے قد کی کی تھی مگر نیک اور فرمانبردار تھی،۔۔۔۔۔سب کی عزت کرنے
والی تھی،
اس
نے آتے ساتھ ہی سب کے دل موہ لیے تھے،
ایسا
نہیں تھا کے انعم آتے ساتھ ہی انکی راجدھانی پر قبضہ کر لیا تھا،وہ ہر کام ان سے
پوچھ کر مشورہ لے کر کرتی تھی،
انہیں
پتا تھا کہ وہ ایسے کیوں کرتی تھی یا اپنے ساتھ انہیں چھوٹے چھوٹے کاموں میں مصروف
کیوں رکھتی تھی،
صرف
اس لیے کہ وہ فارغ رہ رہ کر تنگ نہ آ جائیں اور منفی نہ سوچیں،
اور
کتنا اچھا لگتا تھاجب انعم اور انکی بیٹی کی کھلکھلاتی ہوئی ہنسی کی آوازیں سنتی
تھیں،
وہ
سب کی خوشی اور سکون کا خیال ان کی روح تک کو سرشار کر دیتا
تھا۔۔۔۔۔۔۔"'"
☆_☆_☆_☆_☆_☆_☆
آج
کافی دنوں بعد آئی ہو تم۔۔۔۔
اور
یہ سر پکڑ کر کیوں بیٹھی ہو؟؟؟؟؟
بے
جی نے فرخندہ سے پوچھا۔۔۔۔۔
کیا
بتاوں بے جی گھر کے کام اتنے ہوتے ہیں کہ کہیں آ جا نہیں پاتی کام کر کر کے ہمت
جواب دے گئی ہے،
فرخندہ
نے تھکے تھکے لہجے میں جواب دیا،
کیوں
بھلا؟؟؟ بہو سے ابھی کام نہیں کرواتی کیا؟؟؟
پانچ
مہنے تو ہو گئے ہیں شادی کو۔۔۔۔۔
بے
جی اپنی فطرت کے برعکس زرا سخت لہجے میں بولیں،
وہی
تو کام نہیں کرواتی بے جی۔۔۔۔۔کہتی ہے کام کروں گی تو سکن خراب ہو گی۔۔۔۔۔
کام
چھوڑیں وہ تو ہمارے ساتھ مل بیٹھنے پر راضی نہیں ہے،
بس
اپنے کمرے میں ہی زیادہ تر وقت گزارتی ہے۔۔۔۔۔
قاسم
کو بھی اپنے ساتھ باندھ کر رکھا ہوا ہے مجھے تو لگتا ہے میں نے اپنا بیٹا بھی کھو
دیا ہے۔۔۔۔۔۔
فرخندہ
تو گویا پھٹ پڑی تھیں،
اب
کیوں روتی ہو؟
اپنی
پسند سے ہی لائی تھی نا کرن کو پھر وہی سخت ناراضگی بھرا لہجہ،
مجھے
کیا پتا تھا بے جی کہ کرن ایسی ہو گی۔۔۔۔۔یہ تو ہل کر پانی پینے پر بھی راضی نہیں
ہے اس سے بہتر تھا میں ہماری طرح کے ماحول سے رہنے والی لڑکی لاتی،
کم
از کم کچھ تو بہتر ماحول ہوتا گھر کا۔۔۔۔فرخندہ بس رونے والی تھیں،
لو
بھلا تم کیوں ویسی لڑکی لاتی وہ کوئی چاند سی تھوڑی ہوتی،
تمہیں
تو چاند سی بہو چائیے تھی نا وہ تم لے آئیں۔۔۔۔۔
اب
شکایات کیسی؟
جنہیں
نیک شریف بچی چائیے تھی انہیں ویسی ہی ملی۔۔۔۔۔۔۔
تم
نے اور کچھ مانگا ہی کہاں تھا۔۔۔خیر تم بیٹھو میں چائے کا کہہ کر آتی ہوں۔۔۔۔
بے
جی ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئیں اور جاتے جاتے فرخندہ پر سوچوں کے کئی درواکر گئیں۔۔۔۔۔۔۔
☆_☆_☆ ( ختم شد
)☆_☆_☆
No comments:
Post a Comment