لوگ
اب زندگی کے مجرم ہیں
اور
کوئی گناہ یاد نہیں
سجدۂ
بے خودی کے مجرم ہیں
استغاثہ
ہے راہ و منزل کا
راہزن
رہبری کے مجرم ہیں
مے
کدے میں یہ شور کیسا ہے
بادہ
کش بندگی کے مجرم ہیں
ہم
فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا
خدمتِ
آدمی کے مجرم ہیں
کچھ
غزالانِ آگہی ساغرؔ
نغمہ
و شاعری کے مجرم ہیں
No comments:
Post a Comment