نسائی
شریف ہبہ سے متعلق احادیث
مبارکہ
مشترکہ
چیز میں ہبہ کرنے کا بیان
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ
قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ
عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ
اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَتْهُ وَفْدُ هَوَازِنَ
فَقَالُوا يَا مُحَمَّدُ إِنَّا أَصْلٌ وَعَشِيرَةٌ وَقَدْ نَزَلَ بِنَا مِنْ
الْبَلَائِ مَا لَا يَخْفَی عَلَيْکَ فَامْنُنْ عَلَيْنَا مَنَّ اللَّهُ عَلَيْکَ
فَقَالَ اخْتَارُوا مِنْ أَمْوَالِکُمْ أَوْ مِنْ نِسَائِکُمْ وَأَبْنَائِکُمْ
فَقَالُوا قَدْ خَيَّرْتَنَا بَيْنَ أَحْسَابِنَا وَأَمْوَالِنَا بَلْ نَخْتَارُ
نِسَائَنَا وَأَبْنَائَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ أَمَّا مَا کَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَکُمْ
فَإِذَا صَلَّيْتُ الظُّهْرَ فَقُومُوا فَقُولُوا إِنَّا نَسْتَعِينُ بِرَسُولِ
اللَّهِ عَلَی الْمُؤْمِنِينَ أَوْ الْمُسْلِمِينَ فِي نِسَائِنَا وَأَبْنَائِنَا
فَلَمَّا صَلَّوْا الظُّهْرَ قَامُوا فَقَالُوا ذَلِکَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا کَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ
فَهُوَ لَکُمْ فَقَالَ الْمُهَاجِرُونَ وَمَا کَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ
اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَتْ الْأَنْصَارُ مَا کَانَ
لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ
الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ أَمَّا أَنَا وَبَنُو تَمِيمٍ فَلَا وَقَالَ عُيَيْنَةُ
بْنُ حِصْنٍ أَمَّا أَنَا وَبَنُو فَزَارَةَ فَلَا وَقَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ
مِرْدَاسٍ أَمَّا أَنَا وَبَنُو سُلَيْمٍ فَلَا فَقَامَتْ بَنُو سُلَيْمٍ
فَقَالُوا کَذَبْتَ مَا کَانَ لَنَا فَهُوَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
يَا أَيُّهَا النَّاسُ رُدُّوا عَلَيْهِمْ نِسَائَهُمْ وَأَبْنَائَهُمْ فَمَنْ
تَمَسَّکَ مِنْ هَذَا الْفَيْئِ بِشَيْئٍ فَلَهُ سِتُّ فَرَائِضَ مِنْ أَوَّلِ
شَيْئٍ يُفِيئُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْنَا وَرَکِبَ رَاحِلَتَهُ وَرَکِبَ
النَّاسُ اقْسِمْ عَلَيْنَا فَيْئَنَا فَأَلْجَئُوهُ إِلَی شَجَرَةٍ فَخَطِفَتْ
رِدَائَهُ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ رُدُّوا عَلَيَّ رِدَائِي فَوَاللَّهِ
لَوْ أَنَّ لَکُمْ شَجَرَ تِهَامَةَ نَعَمًا قَسَمْتُهُ عَلَيْکُمْ ثُمَّ لَمْ
تَلْقَوْنِي بَخِيلًا وَلَا جَبَانًا وَلَا کَذُوبًا ثُمَّ أَتَی بَعِيرًا
فَأَخَذَ مِنْ سَنَامِهِ وَبَرَةً بَيْنَ أُصْبُعَيْهِ ثُمَّ يَقُولُ هَا إِنَّهُ
لَيْسَ لِي مِنْ الْفَيْئِ شَيْئٌ وَلَا هَذِهِ إِلَّا خُمُسٌ وَالْخُمُسُ
مَرْدُودٌ فِيکُمْ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ بِکُبَّةٍ مِنْ شَعْرٍ فَقَالَ يَا
رَسُولَ اللَّهِ أَخَذْتُ هَذِهِ لِأُصْلِحَ بِهَا بَرْدَعَةَ بَعِيرٍ لِي فَقَالَ
أَمَّا مَا کَانَ لِي وَلِبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَهُوَ لَکَ فَقَالَ
أَوَبَلَغَتْ هَذِهِ فَلَا أَرَبَ لِي فِيهَا فَنَبَذَهَا وَقَالَ يَا أَيُّهَا
النَّاسُ أَدُّوا الْخِيَاطَ وَالْمَخِيطَ فَإِنَّ الْغُلُولَ يَکُونُ عَلَی
أَهْلِهِ عَارًا وَشَنَارًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ
عمرو
بن یزید، حماد بن سلمہ، محمد بن اسحاق، حضرت عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ انہوں نے
فرمایا انہوں نے اپنے والد ماجد سے سنا انہوں نے اپنے دادا سے سنا انہوں نے اپنے
دادا سے کہا ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نزدیک تھے۔ جس وقت (قبیلہ) ہوازن کے
نمائندے حاضر ہوئے تھے اور کہنے لگے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم لوگ
سب کے سب ایک ہی اصل اور ایک ہی خاندان کے فرد ہیں اور ہم لوگوں پر جو بھی آفت اور
مصیبت نازل ہوتی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظاہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ہم لوگوں کے ساتھ احسان فرمائیں۔ خداوند قدوس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم پر احسان فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم دو چیزوں میں سے ایک
چیز اختیار کرو یا تم دولت لے یا تم اپنی عورت کو چھڑا لو۔ انہوں نے عرض کیا آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو اختیار دیا ہماری تمام کی تمام خواہش یعنی عورتیں
اور مال میں ہم دونوں میں سے اختیار کرتے ہیں اپنی عورتوں اور بچوں کو (یعنی خیر
اگر مال دولت حاصل نہ ہو سکے تو نہ سہی ہماری عورتیں اور بچے مل جائیں) رسول کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس قدر میرا اور عبدالمطلب کی اولاد کا
حصہ ہے (مال غنیمت میں سے جو مشاع تھا) وہ میں تم کو دے چکا لیکن جس وقت میں نماز
ظہر ادا کروں تو تم سب کھڑے رہو اور اس طریقہ سے کہو کہ ہم لوگ مدد چاہتے ہیں رسول
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبب تمام مومنین سے یا مسلمانوں سے اپنی عورتوں
اور مال میں۔ راوی نقل کرتے ہیں کہ جس وقت لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ نمائندے
کھڑے ہو گئے اور ان نمائندوں نے وہ ہی بات کہی پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا جو کچھ میرا اور عبدالمطلب کی اولاد کا حصہ ہے وہ تمہارے
واسطے ہے۔ یہ بات سن کر مہاجرین نے بھی یہی کہا اس پر اقرع بن حابس نے کہا ہم اور
قبیلہ بنی تمیم دونوں اس بات میں شامل نہیں ہوئے اور حضرت عیینہ بن حصین نے کہا ہم
اور قبیلہ بنو فرازہ کے لوگ دونوں کے دونوں اس بات کا اقرار نہیں کرتے اور حضرت
عباس بن مرواس نے اسی طرح سے کہا اور اپنے ساتھ قبیلہ بنی سلیم کے لوگوں کو شامل کیا
جس وقت انہوں نے علیحدگی کی بات کہی تو قبیلہ بنی سلیم نے اس کی بات پر انکار کر دیا
اور کہا کہ تم نے جھوٹ بولا ہے اور ہمارا جو کچھ بھی ہے وہ تمام کا تمام رسول کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے ہے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا اے لوگو! تم لوگ ان کی خواتین اور بچوں کو واپس کر دو اور جو شخص مفت
نہ دینا چاہے تو میں اس کے واسطے وعدہ کرتا ہوں کہ اس کو چھ اونٹ دئیے جائیں اس
مال میں سے جو کہ پہلے خداوند قدوس نے عطا فرمائے (یعنی ان خواتین اور بچوں میں جو
اس کا حصہ تھا اس کے عوض) یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوار ہو گئے اونٹ
پر۔ لیکن لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے ہی رہ گئے اور کہنے لگا واہ واہ
ہم لوگوں کا مال غنیمت ہمارے ہی درمیان تقسیم فرما دیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو چاروں طرف سے گھیر کر ایک درخت کی جانب لے گئے۔ وہاں پر آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی چادر مبارک درخت سے علیحدہ ہو کر الگ ہوگئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا اے لوگو! مجھ کو میری چادر اٹھا دو خدا کی قسم اگر تہامہ (جنگل) کے
درختوں کے برابر بھی جانور ہوں تو تم لوگوں پر ان کو تقسیم کر دوں پھر تم لوگ مجھ
کو کنجوس اور بخیل نہیں قرار دو گے اور نہ ہی مجھ کو بزدل قرار دو گے اور نہ ہی میرے
خلاف کرو گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اونٹ کے نزدیک تشریف لائے اور آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی پشت کے بال اپنے ہاتھ کی چٹکی میں لے لیے پھر
فرمانے لگے کہ تم لوگ سن لو میں اس فئی میں سے کچھ بھی نہیں لیتا مگر پانچواں حصہ
اور وہ پانچواں حصہ بھی لوٹ کر تم لوگوں کے ہی خرچہ میں آجائے گا۔ یہ بات سن کر ایک
شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک آکر کھڑا ہوگیا اور اس کے پاس ایک گچھا
تھا بالوں کا اور اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں نے ہی یہ چیز
لی ہے تاکہ میں اس چیز سے اپنے اونٹ کی کملی درست کر سکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا جو شے میرے واسطے اور عبدالمطلب کی اولاد کے واسطے ہے بس وہ
تمہاری ہے۔ اس پر اس شخص نے عرض کیا جس وقت یہ معاملہ اس حد کو پہنچ گیا اب اس کی
مجھ کو کوئی ضرورت نہیں ہے اور پھر اس نے وہ بالوں کا گچھا پھینک ڈالا۔ راوی بیان
کرتا ہے کہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اور لوگوں کو
حکم فرمایا (اگر کسی نے) سوئی اور دھاگہ لے لیا ہو تو وہ بھی اس تقسیم میں داخل
کرو کیونکہ غنیمت کے مال میں چوری شرم اور عیب ہوگا چوری کرنے والے شخص کے واسطے قیامت
کے دن۔
No comments:
Post a Comment