سعادت حسن منٹو
11 مئی 1912کو موضع سمبرالہ ، ضلع لدھیانہ میں
پیدا ہو ئے ۔
سعادت حسن منٹو
ابتدا ہی سے اسکول کی تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر
میں ہوئی۔ 1921ء میں اسے ایم اے او مڈل اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔
ان کا تعلیمی کریئر حوصلہ افزا نہیں تھا۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے
کےبعد انہوں نے 1931 میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔
جس کے بعد انہوں نے ہندو سبھا کالج میں ایف
اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر ، ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا-
انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بہترین
افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں ، بو شامل ہیں۔
ان کے کئی افسانوی مجموعے اور خاکے اور ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔ کثرتِ شراب نوشی کی
وجہ سے 18 جنوری 1955ء ان کا انتقال ہوا۔
سعادت حسن منٹو اردو کا
واحد افسانہ نگار ہے جس کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔ وہ ایک
صاحب اسلوب نثر نگار تھے جن کے افسانہ مضامینن اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت
کے مالک ہیں۔ منٹو ایک معمار افسانہ نویس تھے جنہوں نے اردو افسانہ کو ایک نئی راہ
دکھائی-
اور میں یہاں آپ کو
سعادت حسن منٹو کی طرف سے ایک مقبول ترین
افسانہ "حجِ اکبر " پوسٹ کرنے جارہا ہوں ،امید ہے کہ آپ لطف اندوز
ہونگے۔
حجِ اکبر
امتیاز صغیر کی شادی ہوئی
تو شہر بھر میں دھوم مچ گئی، آتش بازیوں کا رواج باقی نہیں رہا تھا مگر دولہے کے
باپ نے اس پرانی عیاشی پر بے دریغ روپیہ صرف کیا، جب صغیر زیوروں سے لدے پھندے سفید
براق گھوڑے پر سوار تھا تو اس کے چاروں طرف انار چھوٹ رہے تھے ، مہتابیاں اپنے رنگ
برنگ شعلے بکھیر رہی تھیں، پٹاخے چھوٹ رہے تھے ، صغیر خوش تھا۔
صغیر نے امتیاز کو ایک
شادی کی تقریب میں دیکھا تھا، اس کی جھلک اسے دکھائی دی تھی، مگر وہ اس پر سو جان
سے فریضہ ہو گیا، اور اس نے دل میں عہد کر لیا کہ وہ اس کے علاوہ کسی کو اپنی رفیقہ
حیات نہیں بنائے گا، چاہے دنیا ادھر کی ادھر نہ ہو جائے ، دنیا ادھر کی ادھر نہ
ہوئی، صغیر نے امتیاز کے راستے ڈھونڈ لئے شروع شروع میں اس خوبرو لڑکی کے حجاب آڑے
آیا، لیکن بعد میں صغیر کو اس کا التفات حاصل ہو گیا۔
صغیر بہت مخلص دل کا
نوجوان تھا، اس میں ریا کاری نام کو بھی نہیں تھی، اس کو امتیاز سے محبت ہو گئی تو
اس نے یہ سمجھا کہ اسے اپنی زندگی کا اصل مقصد حاصل ہو گیا، اس کو اس بات کی کوئی
فکر نہیں تھی کہ امتیاز اسے قبول کرے گی یا نہیں وہ اس قسم کا آدمی تھا کہا اپنی
محبت کے جذبے کے سہارے ساری زندگی بسر کر دیتا، اس کو جب امتیاز سے پہلی بار بات
کرنے کا موقع ملا تو اس نے گفتگو کی ابتدا ہی ان الفاظ سے کی، دیکھو لالی، میں ایک
نا محرم آدمی ہوں، میں نے مجبور کیا ہے تم مجھ سے ملو، اب اس ملاپ کا انجام بھی نیک
ہونا چاہئے ، یہ میرے ضمیر اور دل کی اکھٹی آواز ہے ، تم بھی وعدہ کرو کہ جب تک میں
زندہ ہو مجھے کوئی آزا رنہیں پہنچاؤ گی اور میری موت کے بعد بھی مجھے یاد کرتی رہو
گی، اس لئے کہ قبر میں بھی میری سوکھی ہڈیاں تمہارے پیار کی بھوکی ہوں گی۔
امتیاز نے دھڑکتے ہوئے
دل سے وعدہ کیا کہ وہ اس عہد پر قائم رہے گی، اس کے بعد ان دونوں میں چھپ چھپ کے
ملاقاتیں رہیں، صغیر مطمئن تھا کہ امتیاز اس کی محبت کی دعوت قبول کر چکی ہے ، اس
لئے اب اور زیادہ گفتگو کرنے کی ضرورت تھی، ویسے وہ بھی اپنی محبوبہ سے ملنا اس لئے
ضروری سمجھتا تھا کہ وہ اس کے عادات و خصائل سے واقف ہو جائے اور وہ بھی اس کو اچھی
جان پہچان لے تاکہ وہ اس خصلت کا اندازہ کر سکے اور اس کو شکایت کا کوئی موقع نہ
ملے ، اس نے ایک دن امتیاز سے بڑے غیر عاشقانہ انداز میں کہا، نازی میں اب بھی تم
سے کہتا ہوں کہ اگر تم نے مجھ میں کوئی خامی دیکھی ہے اگر میں تمہارے معیار پر
پورا نہیں اترا تو مجھے سے صاف صاف کہہ دو، تم کسی بندھن میں گرفتار نہیں ہو، تم
مجھے دھتکارا تو مجھے کوئی شکایت نہیں ہو گی، میری محبت میرے لئے کافی ہے ، میں اس
کے اور ان ملاقاتوں کے سہارے کافی دیر تک جی سکتا ہوں۔
امتیاز اس سے بہت متاثر
ہوئی اس کا جی چاہا کہ صغیر کو اپنے گلے سے لگا کر رونا شروع کر دے مگر وہ اسے نا
پسند کرتا تھا، اس لئے اس نے اپنے جذبات اندر ہی مسل ڈالے ، وہ چاہتی تھی کہ صغیر
اس سے فلسفیانہ باتیں نہ کرے، لیکن کبھی کبھی اس طور پر بھی اس سے پیش آئے ، جس
طرح فلموں میں ہیرو اپنی ہیروئن سے پیش آتا ہے ، مگر صغیر کو ایسی عامیانہ حرکت سے
نفرت تھی۔
پہلی رات کو حجلہ عروسی
میں جب صغیر داخل ہوا تو امتیاز چھینک مار رہی تھی، وہ بہت متفکر ہوا امتیاز کو
بلا شبہ زکام ہو رہا تھا لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا خاوند اس معمولی سے
عارضے کی طرف متوجہ ہو کر اس کی تمام امنگوں کو فراموش کر دے وہ سرتاپا سپردگی تھی
مگر صغیر کو اس بات کی تشویش تھی کہ امتیاز اس کی جان سے زیادہ عزیز ہستی علیل ہے
، چنانچہ اس نے فورا ڈاکٹر بلوایا، جو دوائیاں اس نے تجویز کیں بازار سے خرید کر
لایا، اور اپنی نئی دلہن کو جس کو ڈاکٹر کی آمد سے کوئی دلچسپی تھی نہ اپنے خاوند
کی تیمار داری سے مجبور کیا کہ وہ انجکشن لگوائے اور چار چار گھنٹے کے بعد دار پئے
، زکام کچھ شدید قسم کا تھا اس لئے چار دن اور چار راتین صغیر اپنی دلہن کی تیمار داری
میں مصروف رہا، امتیاز چڑ گئی، وہ جانے کیا سوچ کر عروسی جوڑا پہن کر صغیر کے گھر
آئی تھی، مگر وہ بے کار، اس کے زکام کو درست کرنے کے پیچھے پڑا ہوا تھا، جیسے دلہا
دلن کیلئے بس ایک یہی چیز اہم ہے باقی اور باتیں سب فضول ہیں۔
تنگ آ کر ایک دن اس نے
اپنے ضرورت سے زیادہ شریف شوہر سے کہا، آپ چھوڑئیے میرے معالجے کو، میں اچھی بھلی
ہوں، پھر اس نے دعوت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا میں دلہن ہوں آپ کے گھر آئی
ہوں، اور آپ نے اسے اسپتال بنا دیا ہے ، صغیر نے بڑے پیار سے دلہن کا ہاتھ دبایا
اور مسکرا کر کہا، نازی خدا نہ کرے کہ یہ کوئی اسپتال ہو، یہ میرا گھر نہیں تمہارا
گھر ہے ، اس کے بعد امتیاز کو جو فوری شکایت تھی وہ دور ہو گئی، اور شیر و شکر ہو
کر رہنے لگے صغیر اس سے محبت کرتا تھا لیکن اس کو ہمیشہ امتیاز کی صحت اس کے جسم کی
خوبصورتیوں اور اس کو ترو تازہ دیکھنے کا خیال رہتا تھا، وہ اسے کانچ کے نازک
پھولدان کی طرح سمجھتا تھا، جس کے متعلق ہر وقت یہ خدشہ ہو کہ ذرا سی بے احتیاطی
سے ٹوٹ جائے گا، امتیاز اور صغیر کا رشتہ دوہرا تھا دو بھائی اصغر حسین اور امجد
حسین تھے ، کھاتے پیتے تاجر، صغیر بڑے بھائی اصغر حسین کا لڑکا تھا اور امتیاز
امجد حسین کی بیٹی تھی، اب یہ دنوں میاں بیوی تھے ، شادی سے پہلے دونوں بھائیوں میں
کچھ اختلافات تھے جو اب دور ہو گئے۔
امتیاز کی دو بہنیں اور
تھیں اور جو اس پر جان چھڑکتی تھیں، امتیاز کا بیاہ تو ہوا ان دونوں کی باری قدرتی
طور پر آ گئی، وہ اپنے گھروں میں آباد خوش تھیں، کبھی کبھی امتیاز سے ملنے آتیں،
اور صغیر کے اخلاق سے متاثر ہوتیں ان کی نظر میں وہ آئیڈیل شوہر ہے۔
دو برس گزر گئے امتیاز
کے ہاں کوئی بچہ نہ ہوا، دراصل وہ چاہتا تھا کہ اتنی چھوٹی عمر میں وہ اولاد کے
بکھیڑوں میں نہ پڑے ، ان دنوں کے دن کے ابھی کھیلنے کودنے کے تھے ، صغیر ہر روز
اسے سینما لے جاتا باغوں کی سیر کراتا، نہر کے کنارے کنارے اسکے ساتھ ساتھ چہل قدمی
کرتا، اس کی ہر آسائش کا خیال تھا، بہترین کھانے ، اچھے سے اچھا باورچی اگر امتیاز
کبھی باورچی خانے کا رخ کرتی تو وہ اسے کہتا تازی انگیٹھیوں میں پتھر کے کوئلے
جلتے ہیں، ان کی بو بہت بری ہوتی ہے ، اور صحت کیلئے نا مفید، میری جان تم اندر نہ
جایا کرو، دو نوکر ہیں، کھانے پکانے کا کام جب تم نے ان کے سپرد کر رکھا ہے تو اس
زحمت کی کیا ضرورت ہے ، امتیاز مان جاتی۔
سردیوں میں صغیر کا بڑا
بھائی اکبر جو نیروبی میں ایک عرصہ مقیم تھا اور ڈاکٹر تھا کسی کام کے سلسلے میں
کراچی آیا ہوا تھا تو اس نے سوچا کہ چلو لاہور صغیر سے مل آئیں بذریعہ ہوائی جہاز
لاہور پہنچا اور اپنے چھوٹے بھائی کے پاس ٹھہرا، وہ صرف چار روز کیلئے آیا کہ ہوائی
جہاز میں اس کی سیٹ پانچویں دن کی بک تھی، مگر جب اس کی بھابی نے جو اس کی آمد پر
خوش ہوئی تھی، اصرار کیا تو چھوٹے بھائی صغیر نے اس سے کہا، بھائی جان آپ اتنی دیر
کے بعد آئے ہیں کچھ دن اور ٹھہر جائیے ، میری شادی میں آپ شریک ہوئے تھے جتنے آپ
فالتو ٹھہریں گے اتنا جرمانہ سمجھ لیجے گا، امتیاز مسکرائی اور اکبر سے مخاطب ہوئی،
اس تو آپ کو ٹھہرنا ہی پڑے گا اور پھر مجھے آپ نے شادی پر کوئی تحفہ بھی تو نہیں دیا،
میں جب تک وصول نہیں کر لوں گی آپ کیسے جا سکتے ہیں اور آپ کو میں جانے بھی کب دوں
گی۔
دوسرے روز اکبر اس کو
ساتھ لے گیا اور سچے موتیوں کا ایک ہار لے دیا، صغیر نے اپنے بڑے بھائی کا شکریہ
ادا کیا، اس لئے کہ ہار بہت قیمتی تھا کم از کم پانچ ہزار کا ہو گا ہی، اسی دن
اکبر نے واپسی نیروبی جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور صغیر سے کہا کہ وہ ہوائی جہاز میں
اس کے ٹکٹ کا بندوبست کر دے اس لئے کے اس کی لاہور شہر میں کافی واقفیت تھی اکبر
نے اس کو روپے دئیے مگر اس نے خود دارانہ انداز میں کہا، آپ ابھی اپنے پاس رکھئے میں
لے لوں گا، اور ٹکٹ کا بندوبست کرنے چلا گیا، اسے کوئی دقت نہ ہوئی اس لئے کہ ہوائی
جہاز سروس کا ایک جنرل مینیجر اس کا دوست تھا اس نے فورا ٹکٹ لے دیا، صغیر کچھ دیر
اس کے ساتھ بیٹھا گپ لڑا تا رہا اس کے بعد گھر کا رخ کیا، موٹر گیراج میں بند کر
کے وہ اندر داخل ہوا لیکن فورا باہر نکل آیا، گیراج سے موٹر نکالی اور اس میں بیٹھ
کے جانے کہاں روانہ ہو گیا، اکبر اور امتیاز دیر تک اس کا انتظار کرتے رہے مگر وہ
نہ آیا انہوں نے موٹر کے آنے اور گیراج میں بند ہونے کی آواز سنی تھی، مگر انہوں
نے سوچا کہ شاید ان کے کانوں کو دھوکا ہوا تھا، اس لئے کہ صغیر موجود تھا نہ اس کی
موٹر وہ غائب ہو گیا تھا؟ اکبر کو واپس جانا تھا، مگر اس نے ایک ہفتہ انتظار کیا
ادھر ادھر کئی جگہ پوچھ گچھ کی پولیس میں رپورٹ لکھوائی مگر صغیر کی کوئی سن گن نہ
ملی، آخری دن جب کہ اکبر جا رہا تھا پولیس اسٹیشن سے اطلاع ملی کہ پی بی ایل
100591 نمبر کی موٹر کار جس کے ایک خانے میں صغیر اختر نام کے لائسنس نکلا ہے ،
ہوائی اڈے کے باہر کئی دنوں سے پڑی ہے ، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اکبر امجد حسین
نام کے ایک آدمی نے آٹھ روز پہلے ہوائی جہاز میں نیروبی کا سفر کیا ہے ، اکبر کی سیٹ
نیروبی کیلئے بک تھی امتیاز سے رخصت لے کر جب وہ کینیا پہنچا تو اسے بڑی مشکلوں کے
بعد صرف اتنا پتہ چلا ایک صاحب جن کا نام اکبر امجد تھا ہوائی جہاز کے ذریعے سے یہاں
پہنچے تھے ایک ہوٹل میں دو روز ٹھہرے اس کے بعد چلے گئے۔
اکبر نے بہت تلاش کی مگر
کوئی پتہ نہ چلا اس دوران میں اس کو امتیاز کے کئی خطوط آئے ، پہلے دو تین خطوں کی
تو اس نے رسید بھیجی اس کے بعد جو بھی خط آیا پھاڑ دیتا تاکہ اس کی بیوی نہ پڑھ لے
، دس برس گزر گئے امجد حسین یعنی امتیاز کا باپ بہت پریشان تھا، بہت لوگوں کا خیال
تھا کہ صغیر مر کھپ چکا ہے مگر امجد حسین کا دل نہیں مانتا تھا۔
کہیں اس کی لاش ہی مل
جاتی، خود کشی کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟ بڑا نیک ، شریف اور برخوردار لڑکا
تھا، امجد کو اس سے بہت محبت تھی، ایک ہی بات اس کی سمجھ میں آئی تھی کہ اس کی بیٹی
امتیاز نے کہیں اس جیسے ذکی الحس آدمی کو ایسی ٹھیس نہ پہنچائی ہو کہ وہ دل شکستہ
ہو کر کہیں رو پوش ہو گیا ہے ، چنانچہ اس نے امتیاز سے کئی مرتبہ اس بارے میں
پوچھا مگر وہ صاف منکر ہو گئی، خدا اور رسول کی قسمیں کھا کر اس نے اپنے باپ کی
تشفی کر دی، کہ اس سے اسی کوئی حرکت سرز نہیں ہوئی اکثر اوقات وہ روتی تھی، اس کو
صغیر یاد آتا تھا، اس کی نرم و نازک محبت یاد آتی تھی، اس کو وہ دھیما دھیما نسیم
سحری کا سلوک یاد آتا تھا، جو اس کی فطرت تھی، نیا پیرا امجد کا ایک دوست حج کو گیا،
واپس آیا تو اس نے اس کو یہ خوشخبری سنائی کہ صغیر زندہ ہے اور ایک عرصے سے مکے میں
مقیم ہے امجد حسین کو ہوش ہوا، اس کو اس کے دوست نے صغیر ہندی کا پتا دیا تھا، اس
نے اپنی بیٹی کو تیار کیا کہ وہ اس کے ساتھ حجاز چلے ، فورا ہوائی جہاز کا سفر کا
انتظام کیا، امتیاز ساتھ جانے کو تیار نہ تھی، اس کو جھجھک سی محسوس ہو رہی تھی۔
بہر حال باپ بیٹی سرزمین
حجاز میں پہنچے ، ہر مقدس مقام کی زیارت کی، امجد حسین نے ایک ایک کونہ چھان مارا
مگر صغیر کا پتہ نہ چلا، چند آدمیوں سے جو اس کو جانتے تھے ، صرف اتنا معلوم ہوا
کہ وہ آپ کی آمد سے دس روز پہلے ، کیونکہ اسے کسی نہ کسی طریق معلوم ہو چکا تھا،
کہ آپ تشریف لا رہے ہیں، کھڑکی سے کود اور گر کر ہلاک ہو گیا، مرنے سے پہلے چند
لمحات اس کے ہونٹوں پر ایک لفظ کانپ رہا تھا غالباً امتیاز تھا۔
اس کی قبر کہاں ہے وہ کب
اور کیسے دفن ہوا اس کے متعلق صغیر کے جاننے والوں نے کچھ نہ بتایا، یہ ان کے علم
میں نہیں تھا، امتیاز کو یقین ہو گیا کہ اس کے خاوند نے خودکشی کر لی ہے ، اس کو
شاید اس کا سبب معلوم تھا، مگر اس کا باپ یہ ماننے سے یکسر منکر تھا، چنانچہ اس نے
ایک بار اپنی بیٹی سے کہا میرا دل کہتا ہے وہ زندہ ہے ، وہ تمہاری محبت کی خاطر اس
وقت تک زندہ رہے گا جب تک خدا اس کو موت کے فرشتے کے حوالے نہ کر دے ، میں اس کو
اچھی طرح سمجھتا تمہاری جگہ اگر وہ میرا بیٹا ہوتا تو میں خود کو دنیا کا سب سے
خوش نصیب انسان سمجھتا، یہ سن کر امتیاز خاموش رہی۔
دونوں سرزمین حجاز سے بے
نیل و مرام واپس آ گئے ، ایک برس گزر گیا، اس دوران میں امجد حسین بڑی مہلک بیماری
یعنی دل کے عارضے میں گرفتار ہوا اور وفات پا گیا، مرتے وقت اس نے اپنی بیٹی کو
کچھ کہنا چاہا مگر وہ شاید بڑی اذیت دہ تھی کہ وہ خاموش رہا اور صرف سرزنش بھری
نگاہوں سے امتیاز کو دیکھتے دیکھتے مر گیا، اس کے بعد امتیاز اپنی بہن ممتاز کے
پاس راولپنڈی چلی گئی، ان کی کوٹھی کے سامنے ایک اور کوٹھی تھی، جس میں ایک ادھیڑ
عمر کا مرد بہت تھکا تھکا سا دکھائی دیتا تھا، دھوپ تاپتا اور کتابیں پڑھتا رہتا
تھا، ممتاز اس کو ہر روز دیکھتی، ایک دن اس نے امتیاز سے کہا، مجھے ایسا معلوم
ہوتا ہے یہ صغیر ہے ، کیا تم نہیں پہچان سکتی ہو، وہی ناک نقشہ متانت وہی سنجیدگی،
امتیاز نے اس آدمی کی طرف غور سے دیکھا ایک دم چلائی ہاں ہاں وہی ہے پھر فورا رک
گئی، لیکن وہ کیسے ہو سکتے ہیں وہ تو وفات پا چکے ہیں۔
انہیں دنوں ان کی چھوٹی
بہن شہناز بھی آ گئی ممتاز اور امتیاز نے ان کو قبل از وقت مرجھایا اور افسردہ مرد
دکھایا جس کی داڑھی کھچڑی تھی، اور اس سے پوچھا تم بتاؤ اس کی شکل صغیر سے ملتی ہے
یا نہیں؟ شہناز نے اس کو بڑی گہری نظروں سے دیکھا اور فیصلہ کن لہجے میں کہا، شکل
ملتی کیا ہے یہ خود صغیر ہے سونی صدی صغیر اور یہ کہہ کہ وہ سامنے والی کوٹھی میں
داخل ہو گئی وہ شخص کتاب پڑھنے میں مشغول تھا چونکا، شہناز جس نے شادی کے موقع پر
اس کی جوتی چرائی تھی، اسی پرانے انداز میں کہا، جناب آپ کب تک چھپے رہیں گے ؟
اس شخص نے شہناز کی طرف
دیکھا اور بڑی سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے پوچھا آپ کون ہیں؟
شہناز طرار تھی اس کے
علاوہ اس کو یقین تھا کہ جس سے وہ ہم کلام ہے وہ اس کا بہنوئی ہے چنانچہ اس نے بڑے
نوکیلے لہجے میں کہا جناب میں آپ کی سالی شہناز ہوں، اس شخص نے شہناز کو سخت نا امید
کیا اس نے کہا، مجھے افسوس ہے کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، اس کے بعد شہناز نے اور
بہت سی باتیں کیں مگر اس نے بڑے ملائم انداز میں اس سے جو کچھ کہا، اس کا یہ مطلب
تھا کہ تم ناحق اپنا وقت ضائع کر رہی ہوں، میں تمہیں جانتا ہوں نہ تمہاری بہن کو
جس کے متعلق تم کہتی ہو کہ میری بیوی ہے ، میری بیوی اپنی زندگی میں ہے اور میں ہی
اس کا خاوند ہوں۔
شہناز اور ممتاز کو
معلوم ہو گیا تھا کہ وہ امتیاز کے متعلق تمام معلومات حاصل کرتا ہے ، ان کو یہ بھی
پتہ چل گیا تھا کہ اس پر اسرار مرد کے نوکر کے ذریعے سے کہ وہ راتوں کو اکثر روتا
ہے نمازیں پڑھتا ہے اور دعائیں مانگتا ہے کہ زندہ رہے وہ چاہتا ہے کہ اس کو جو اذیت
پہنچی ہے اس سے دیر تک لطف اندوز ہوتا رہے ، نوکر حیران تھا کہ انسان کی زندگی میں
ایسی کون سی تکلیف ہو سکتی ہے ، جس سے وہ حظ اٹھا سکتا تھا، سب باتیں امتیاز سنتی
تھی اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ مر جائے ، چنانچہ اس نے جب یہ سنا
کہ وہ شخص جس کو امتیاز اچھی طرح پہچانتی تھی، اس کے نام سے قطعاً نا آشنا ہے تو
اس نے ایک روز افیم کھا لی اور یہ ظاہر کیا کہ اس کے سر میں درد ہے اور اکیلی آرام
کرنا چاہتی ہے ، وہ آرام کرنے چلی گئی لیکن شہناز نے جب اس کو غنودگی کے عالم میں
دیکھا تو اسے شبہ ہوا اس نے ممتاز سے بات کی، اس کا ماتھا بھی ٹھنکا کمرے میں جا
کر دیکھا تو امتیاز بالکل بے ہوش پڑی تھی، اس کو جھنجھوڑا مگر نہ جاگی شہناز دوڑی
دوڑی سامنے کوٹھی میں گئی اور اس شخص جس کا نام راولپنڈی میں کسی کو نا معلوم تھا،
سخت گھبراہٹ میں یہ اطلاع دی کہ اس کی بیوی نے زہر کھا لیا ہے ، اور مرنے کے قریب
ہے ، یہ سن کر اس نے اتنا کہا آپ کو غلط فہمی ہے وہ میری بیوی نہیں ہے ، لیکن میرے
ہاں اتفاق سے ایک ڈاکٹر آیا ہوا ہے ، آپ چلیئے میں اسے بھیج دیتا ہوں۔
شہناز گئی تو وہ اندر
کوٹھی میں گیا اور اپنے بھائی اکبر سے کہا، یہ جو کوٹھی سامنے ہے اس میں کسی عورت
نے زہر کھا لیا ہے ، بھائی جان آپ جلدی سے جائیے ، اور کوشش کیجئے کہ بچ جائے ، اس
کا بھائی جو نیروبی میں بہت بڑا ڈاکٹر تھا امتیاز کو نہ بچا سکا دونوں نے ایک دوسرے
کو دیکھا تو اس کا رد عمل بہت مختلف تھا، امتیاز فورا مر گئی اور اکبر اپنا بیگ لے
کر واپس چلا گیا، صغیر نے اس سے پوچھا کیا حال ہے مریضہ کا؟
اکبر نے
جواب دیا مر گئی، صغیر نے اپنے ہونٹ بھینچ کر بڑے مضبوط لہجے میں کہا میں زندہ
رہوں گا، لیکن ایک دم سنگین فرش پر لڑکھڑانے کے بعد گرا اور جب اکبر نے اس کی نبض
دیکھی تو وہ ساکت تھی۔
No comments:
Post a Comment