سعادت حسن منٹو
11 مئی 1912کو موضع سمبرالہ ، ضلع لدھیانہ میں پیدا ہو ئے ۔
سعادت حسن منٹو ابتدا ہی سے اسکول کی تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ 1921ء میں اسے ایم اے او مڈل اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ ان کا تعلیمی کریئر حوصلہ افزا نہیں تھا۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کےبعد انہوں نے 1931 میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔
جس کے بعد انہوں نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر ، ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا- انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں ، بو شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور خاکے اور ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔ کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے 18 جنوری 1955ء ان کا انتقال ہوا۔
سعادت حسن منٹو اردو کا واحد افسانہ نگار ہے جس کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں ۔ وہ ایک صاحب اسلوب نثر نگار تھے جن کے افسانہ مضامینن اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت کے مالک ہیں۔ منٹو ایک معمار افسانہ نویس تھے جنہوں نے اردو افسانہ کو ایک نئی راہ دکھائی-
اور میں یہاں آپ کو سعادت حسن منٹو کی طرف سے ایک مقبول ترین افسانہ "اپاہج " پوسٹ کرنے جارہا ہوں ،امید ہے کہ آپ لطف اندوز ہونگے۔
اپاہج
عائشہ نے شفقت کی چھاتی
کے بالوں پر انگلیوں سے کنگی کرتے ہوے کہا شفقت صاحب کون شادی کرے گا ایک اپاہج
سے؟
نہیں نہیں ایسا نہ کہوں
عائشہ
اتنی بڑی قربانی کون کر
سکتا ہے شفقت صاحب؟
تم ٹھیک کہتی ہو
خوبصورت ہے اچھے کھاتے پیتے
ماں باپ کی لڑکی ہے سب ٹھیک ہے مگر.......
میں سمجھتا ہوں لیکن.....
مردوں کے دل میں رحم
کہاں......
شفقت نے کروٹ بدلی ایسا
نہ کہو عائشہ....
عائشہ نے بھی کروٹ بدلی
دونوں روبرو ہو گئے سب جانتی ہو کوئی ایسا مرد ڈھوڈئیے جو اس بے چاری سے شادی کرنے
پر آمادہ ہو.....
مجھے معلوم نہیں لیکن.........
بڑی بہن ہے غریب کو کتنا
دُکھ ہے کہ اس کی چھوٹی بہن کی شادی کی بات ہو رہی ہے....
سہی کہتی ہو تم.......
عائشہ نے ایک لمبی آہ
بھری کیا بچاری ساری عمر کڑھتی رہے گی.......
نہیں یہ کہہ کر شفقت
اُٹھ کر بیٹھ گیا......
عائشہ نے پوچھا کیا
مطلب.....؟
تمہیں اس سے ہمدردی
ہے...؟
کیوں نہیں..............
خدا کی قسم کھا کر
کہو.....
ہائے یہ بھی کوئی قسم
کھلوانے والی بات ہے..
ہر انسان کواس سے ہمدردئ
ہونی چائیے.....
شفقت نے چند لمحات خاموش
رہنے کے بعد کہا تو میں نے ایک بات سوچی ہے....
عائشہ نے خوش ہو کر کہا
کیا...؟
مجھے ہمیشہ اس بات کا
احساس رہا کہ تم بہت بلند خیال عورت ہو آج تم نے میرے اس خیال کو ثابت کر دیامیں
نے ......... خدا میرے اس فصلیہ کو استقامت بخشے.......میں نے اردہ کر لیا ہے کہ میں
نگہت سے شادی کروں گا سارا ثواب تمہیں ملے گا.....
تھوڑی خاموشی رہی پھر ایک
دم جیسے گولا پٹھا
شفقت صاحب گولی مار دوں
گی اُسے اگر آپ نے اس سے شادی کی......
شفقت نے ایسا محسوس کیا
کے اسے زبردست گولی لگی ہے اور وہ مر کر اپنی بیوی کی آغوش میں دفن ہو گیا ہے...
(سعادت حسن منٹو)
No comments:
Post a Comment