قریب_ دار کٹا دن تو رات کانٹوں پر
گزار
دی ہے کسی نے حیات کانٹوں پر
تغیرات
سے افزوں ہے ارتقاء کا مزاج
ملا
ہے گل کو چمن میں ثبات کانٹوں پر
بلا
سے ۔۔ دامن_ ہستی جو تار تار ہوا
مرے
جنوں نے لگائی ہے گھات کانٹوں پر
چٹک
رہے ہیں شگوفے۔۔۔ تمہاری یادوں کے
سجی
ہے شبنم و گل کی بارات کانٹوں پر
یہ
اور بات ہے پھولوں کا ذکر ہے ساغر
کہ
اتفاق سے پہنچی ہے بات کانٹوں پر
No comments:
Post a Comment