ہماری بادہ کشی کہہ رہی
ہے سب اچھا
نہ اعتبارِ محبت، نہ اختیارِ
وفا
جُنوں کی تیز روی کہہ رہی
ہے سب اچھا
دیارِ ماہ میں تعمیر مَے
کدے ہوں گے
کہ دامنوں کی تہی کہہ رہی
ہے سب اچھا
قفس میں یُوں بھی تسلّی
بہار نے دی ہے
چٹک کے جیسے کلی کہہ رہی
ہے سب اچھا
وہ آشنائے حقیقت نہیں تو
کیا غم ہے
حدیثِ نامہ بَری کہہ رہی
ہے سب اچھا
تڑپ تڑپ کے شبِ ہجر
کاٹنے والو
نئی سحر کی گھڑی کہہ رہی
ہے سب اچھا
حیات و موت کی تفریق کی
کریں ساغر
ہماری شانِ خودی کہہ رہی
سب اچھا
No comments:
Post a Comment