لیکن
کہاں نصیبِ تمنّا میں چار پھول
شاید
یہیں کہیں ہو ترا نقشِ پائے ناز
ہم
نے گِرا دئیے ہیں سرراہ گزار پھول
بھونروں
کو جستجو ہے تری کنج کنج میں
شاخوں
پہ کر رہے ہیں ترا انتظار پھول
آورگانِ
شوق چلو ہم کریں تلاش
وہ
کارواں جو چھوڑ گیا ہے غبار پھول
کانٹوں
پہ جی لئے کبھی پھولوں پہ مر لئے
اپنی
نظر میں ایک ہیں گلشن میں خار پھول
کھولے
ہیں اس نے گیسوئے عنبر فشاں ضرور
کچھ
حد سے ہو گئے ہیں سو اشکبار پھول
ساغر
بہار میں نہ رہی مئے کی جستجو
شیشے
میں بھر کے پی گیا اک بادہ خوار پھول
(ساغر
صدیقی)
No comments:
Post a Comment