جو ہم نظام نمو خانہ وفا کرتے
تو آنسؤں سے محبت کے دل بنا کرتے
یہ فرض کیوں نہ قدم پر تِرے ادا کرتے
نماز عشق تھی سجدے زمیں پہ کیا کرتے
ہر ایک سانس تھی رومان ِ نو کی اِک تمہید
کہاں سے اپنے فسانے کی ابتداء کرتے
مزاج عشق میں ہوتا اگر سلیقہ ناز
توآج اس کے قدم پر بھی سر جھکا کرتے
تِرے سوا نظر ودِل میں کوئی تھا ہی نہیں
مجال کیا تھا کہ ہم فکر ماسوا کرتے
یہ کیا کیا کہ چلے آئے مدعا بن کر
ہم آج حوصلہ ترک مدعا کرتے
سنا یہ تھا کہ محبت ہے بے حد و انجام
روا نہ تھا کہ محبت کا حق ادا کرتے
جھکا کہ سر بہ ادا ئے نیاز بیٹھ گئے
غرور حسن کو بے اعتبار کیا کرتے
شریک حال نہ ہوتی جو کاوشِ امروز
کبھی کبھی غم ماضی پہ رو لیا کرتے
کوئی یہ شکوہ سرایانِ جورِ سے پوچھے
وفا بھی حسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے
غزل ہی کہہ لی سنانے کو حژر میں سیماب
پڑے پڑے یونہی تنہا ،لحد میں کیا کرتے
علامہ سیماب اکبر آبادہ
تو آنسؤں سے محبت کے دل بنا کرتے
یہ فرض کیوں نہ قدم پر تِرے ادا کرتے
نماز عشق تھی سجدے زمیں پہ کیا کرتے
ہر ایک سانس تھی رومان ِ نو کی اِک تمہید
کہاں سے اپنے فسانے کی ابتداء کرتے
مزاج عشق میں ہوتا اگر سلیقہ ناز
توآج اس کے قدم پر بھی سر جھکا کرتے
تِرے سوا نظر ودِل میں کوئی تھا ہی نہیں
مجال کیا تھا کہ ہم فکر ماسوا کرتے
یہ کیا کیا کہ چلے آئے مدعا بن کر
ہم آج حوصلہ ترک مدعا کرتے
سنا یہ تھا کہ محبت ہے بے حد و انجام
روا نہ تھا کہ محبت کا حق ادا کرتے
جھکا کہ سر بہ ادا ئے نیاز بیٹھ گئے
غرور حسن کو بے اعتبار کیا کرتے
شریک حال نہ ہوتی جو کاوشِ امروز
کبھی کبھی غم ماضی پہ رو لیا کرتے
کوئی یہ شکوہ سرایانِ جورِ سے پوچھے
وفا بھی حسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے
غزل ہی کہہ لی سنانے کو حژر میں سیماب
پڑے پڑے یونہی تنہا ،لحد میں کیا کرتے
علامہ سیماب اکبر آبادہ
No comments:
Post a Comment