ناسخ اور اثر کے اشعار
مر گیا ہوں
دیکھ کر جلوہ رخ پر نور کا
میری لوح قبر کو زیبا ہے پتھر طور
کا
(ناسخ)
جب
خیال آیا صنم تیرے رخ پرنور کا
میرے
دل پہ شک ہوا موسیٰ کو شمع طور کا
(اثر)
میرے
سینے پر بتوں کی سرد مہری سے ہے داغ
مشک
سے بد تر ہے پھاہا مرہم کافور کا
سوزش
اپنے داغ میں بھی ہے برنگ آفتاب
چاہیے
جراح مرہم صبح کے کافور کا
(ناسخ)
ہے یہ
نقشہ آتش غم سے دل محرور کا
جل
اٹھا پھاہا جو رکھا داغ پر کافور کا
(اثر)
’کافور کے قافیے میں ذوق نے بھی بڑا عمدہ شعر
کہا ہے
تفتہ
دل وہ ہوں کہ میرے داغ سوزاں کے لیے
گرمی
مرہم سے اڑ جائے اثر کافور کا
(ذوق)
مری
آنکھوں نے دیکھی ہے بہار اس گل کے کوچے کی
مبارک
ہو تجھے زاہد نظارہ باغ رضواں کا
(اثر)
تصور
مجھ کو ہے بیت الحزن میں کوے جاناں کا
جہنم
میں خیال آیا ہے گویا باغ رضواں کا
ناسخ
بسکہ
تھا ہر ایک مجھ کشتے کا باطن میں رقیب
خلق
کے نوحے میں ہے عالم مبارک باد کا
ناسخ
مبتلاے
غم بہت تھا مر گیا شاید اثرؔ
شور
ہے اغیار کے گھر میں مبارک باد کا
اثر
بوسے
لیتی ہے ترے بالے کی مچھلی اے صنم
ہے
ہمارے دل میں عالم ماہی بے آب کا
ناسخ
گر
ترے بالے کی مچھلی کا پڑے دریا میں عکس
موج
میں ہوجائے عالم ماہی بے آب کا
اثر
No comments:
Post a Comment