الف ۔ کی کہاوتیں
(۸۱) اُلو
کی دُم فاختہ :
یہ فقرہ
بھی احمق مطلق کے لئے بولا جاتا ہے۔ اُلو
اور فاختہ کی دُم کی مطابقت کی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔
(۸۲) اللہ نے پانچ انگلیاں برابر نہیں
رکھیں :
جس طرح
اللہ کی بنائی ہوئی پانچ انگلیاں ایک سی
نہیں ہیں
اسی طرح انسان بھی الگ فطرت اور خصلت لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ محل استعمال
ظاہر ہے۔
(۸۳) اللہ کو دیکھا نہیں، عقل سے
تو پہچانا ہے :
اَللہ کو
کسی نے نہیں دیکھا ہے لیکن اس کی قدرت
چاروں جانب ایسی ظاہر ہے کہ اس کے وجود سے
انکار ممکن نہیں ہے۔ اسی مناسبت سے اگر کسی
بات کا کوئی عینی شاہد تو نہ ہو لیکن تمام دیگر شواہد ایک ہی جانب اشارہ کر رہے
ہوں تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۸۴) امیر کی دائی سیکھی سکھائی :
دائی یعنی
ملازمہ۔یہاں یہ کمتری کا استعارہ ہے۔کہاوت
کا مطلب یہ ہے کہ امیر آدمی کا نوکر بھی چالاک ہوتا ہے۔
(۸۵) ان کا باوا آدم ہی نرالا
ہے :
ان کی
دُنیا ہی انوکھی ہے گویا یہ سب سے الگ اور منفرد ہیں۔
(۸۶) اندھا اندھے کو راہ دکھا رہا
ہے :
ایک
اندھا دوسرے اندھے کو بھلا راستہ کیسے دکھا سکتا ہے۔ کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ ایک
کم علم یا جاہل دوسرے کم علم یا جاہل کو کچھ سکھا نہیں سکتا۔ نہ اِسے آتا ہے اور نہ وہ سمجھ سکتا ہے۔
(۸۷) اِن کا آپس میں قارورہ ملتا ہے :
حکیم
تشخیصِ مرض کے لئے مریض کے قارورہ (پیشاب) کا معائنہ کرتے ہیں۔ دو آدمیوں
کا قارورہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی آپس میں ساز باز ہے یا یہ ایک سی طبیعت اور فطرت کے
مالک ہیں۔
(۸۸) ا
نگلی کٹوا کر شہیدوں میں داخل :
یعنی چھوٹا سا کام کر کے بڑے لوگوں کی فہرست میں
نام لکھوانے کی کوشش۔ اس کو ’’لہو
لگا کر شہیدوں میں داخل: بھی کہتے ہیں۔محل استعمال کہاوت سے ظاہر
ہے۔
No comments:
Post a Comment