الف۔کی کہاوتیں
(۵۸) اُستاد بیٹھے پاس، کام آئے
راس :
کسی علم
میں بھی بغیر قابل اور ماہر فن استاد کے
مہارت اور کمال حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
(۵۹) استنجے کا ڈھیلا ہیں :
کسی کی
برائی مقصود ہو تو یہ کہاوت بولتے ہیں، یعنی نہایت بے وقعت اور بے ذوق ہیں۔سنجیدہ
اور ثقہ حلقوں میں اس کے استعمال سے پرہیز کیا جاتا ہے گویا خالص
عوامی کہاوت ہے۔
(۶۰) اشرفیاں بانٹیں
اور کوئلہ پر مہر لگائیں :
پرانے
زمانے میں سونے کا ایک سکہ َ اشرفی کہلاتا
تھا۔ کسی چیز پر مہر لگانے سے مراد اُس کو ایسا
سر بمہر کر دینا ہے کہ اُس تک آسانی سے ہر ایک کی رسائی ممکن نہ ہو۔ اگر
کوئی شخص اپنی قیمتی چیزوں کی قدر نہ کرے
اور فضولیات پر بہت وقت اور پیسہ صرف کرے تو کہتے ہیں کہ’’ اشرفیاں
بانٹی جا رہی ہیں اور کوئلوں پر مہر لگی ہوئی ہے۔‘‘
(۶۱) اصل سے جفا نہیں، کم اصل سے
وفا نہیں :
اصل یعنی
نیک، با اصول شخص۔ ایسے شخص سے زیادتی یا
اس کی حق تلفی بری بات ہے جب کہ بے اصول اور بد خو آدمی سے اچھا سلوک کرنے سے قبل
آگے پیچھے کی سوچ لینا بہتر ہے۔
(۶۲) اطلس میں مونجھ کا بخیہ :
اطلس ایک
قسم کا بہت قیمتی کپڑا ہوتا ہے جب کہ ناریل کی مونجھ بہت موٹی اور گھٹیا ہوتی ہے۔
کہاوت کا مطلب ہے بے جوڑ یانامناسب بات۔اس
معنی میں ’’ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند‘‘ بھی کہتے ہیں۔
(۶۳) اکیلا گھر شیطان کا گھر :
خالی
گھر کی ویرانی سے دل ہراساں ہوتا ہے جیسے
اس پر شیطان قابض ہو گیا ہو۔
(۶۴) اَکل کھُرّا :
خود غرض
اور انتہائی بے مروت شخص کو کہتے ہیں۔
(۶۵) اکیلا
ہنستا بھلا،نہ روتا :
تنہا آدمی
کسی حال میں بھی اچھا نہیں لگتا، نہ تو وہ ہنستا ہی بھلا لگتا ہے اور نہ
روتا۔
No comments:
Post a Comment