الف ۔ کی کہاوتیں
(۶۶) اکیلا چَنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا
:
چنے،
مکا وغیرہ بھوننے والے کو بھڑ بھونجا کہتے
ہیں کیونکہ جس چولھے میں وہ چنے بھونتا ہے وہ بھاڑ کہلاتا ہے۔ بھاڑ ایک
زمیں دوز چولھا ہوتا ہے جس میں بہت سی ریت گرم کی جاتی ہے۔اِس گرم ریت کو کچے
چنوں پر ڈال کر ان کو بھونا جاتا ہے۔ بیک وقت بہت بڑی مقدار میں چنے نہیں بھونے جا سکتے کیونکہ ریت کی گرمی ان
کے لئے ناکافی ہو سکتی ہے۔ بھاڑ کی اس ناکامی کو
اس کا پھوٹنا کہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ صرف ایک ہی چنے سے بھاڑ نہیں پھوٹ سکتا۔ اسی پر قیاس کیجئے کہ بہت سے ایسے
کام ہوتے ہیں کہ ایک شخص کے بس کی بات نہیں ہوتے اور کئی اشخاس کی اجتماعی کوشش سے ہی کچھ
ہو سکتا ہے۔ یہ کہاوت ایسے ہی کام اور موقع کے لئے مستعمل ہے۔
(۶۷) اَگاڑی تمھاری، پچھاڑی ہماری :
یعنی
اگلا حصہ تمھارا اَور پچھلا ہمارا۔ اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے۔ دو بھائیوں نے مل کر ایک بھینس خریدی۔ بڑا بھائی بہت چالاک
اور فریبی تھا جب کہ چھوٹا سادہ لوح اور بھولا بھالا تھا۔ بڑے بھائی نے کہا کہ’’ کیوں نہ بھینس کی خدمت ہم دونوں برا بر
برابر بانٹ لیں۔ تم اس کا اگلا حصہ لے لو اور میں
پچھلا لئے لیتا ہوں۔‘‘ چھوٹا بھائی
راضی ہو گیا ۔چنانچہ وہ بھینس کو چارہ دینے لگا اور بڑا بھائی اُس کے فضلے کی صفائی
کے علاوہ اُس کا دودھ بھی ہڑپ کر نے لگا۔ یہ کہاوت ایسی تجاویز پر بولی جاتی ہے۔
(۶۸) اگلا گرا، پچھلا ہوشیار :
قطار میں چلتے ہوئے آدمیوں میں سے اگر آگے چلتا ہوا شخص ٹھوکر کھا کر گر
پڑے تو اس کے پیچھے آنے والوں کو ہوشیار
ہو جانا چاہئے، گویا دوسروں کے تجربے سے
فائدہ اٹھانا دانشمندی کی نشانی ہے۔
(۶۹) اُلٹے بانس بریلی کو :
ہندوستان میں بریلی شہر بانس کی
تجارت کی منڈی ہے۔ اگر کوئی شخص بانس برائے فروخت بریلی بھیجے تو یہ حماقت ہو گی کیونکہ
وہاں تو اس کی کمی نہیں۔ چنانچہ اگر کوئی
شخص کسی جگہ وہ چیز بھیجے جس کی وہاں
افراط ہے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۷۰) اللہ دے اور بندہ لے :
یعنی ہر
طرح سے اللہ کی نعمتوں کی ایسی بہتات ہے
کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی ہے۔
(۷۱) اللہ ہی اللہ ہے :
یعنی کچھ نہیں
ہے،بس اللہ کا نام رہ گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment