خ۔کی
کہاوتیں
(۱۵) خدا کے گھر سے
پِھرے :
پِھرے یعنی واپس آئے۔ کوئی شخص بال بال موت سے بچ جائے تو
اس کے لئے کہتے ہیں کہ خدا کے گھر سے پھر آیا۔
( ۱۶) خربوزے کو دیکھ کر
خربوزہ رنگ پکڑتا ہے :
آدمی اپنے ہم مشرب ساتھیوں کی نقل کرتا ہے۔ اسی لئے
کہا گیا ہے کہ آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔
( ۱۷ ) خر عیسیٰ اگر بہ مکہ
رَوَد۔ چوں بیا ید ہنوز خر باشد :
یعنی حضرت عیسیٰ کا گدھا
اگر مکہ معظمہ بھی ہو آئے تو واپسی پر بھی وہ گدھا ہی رہے گا۔ نادان آدمی کا
بھی یہی حال ہے کہ کیسا ہی اچھا سبق اس کو دیا جائے وہ نادان ہی رہتا
ہے۔استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۱۸) خس کم جہاں پاک
:
یعنی گھاس پھوس کم ہوئے
اور دُنیا پاک ہو گئی۔ کوئی نا اہل شخص کسی معاملہ کے بیچ سے نکل جائے تو یہ کہاوت
بولتے ہیں۔
( ۱۹) خصم کا کھائے، بھیا کا
گائے :
یہ کہاوت ایسی عورت کے
بارے میں ہے جو خاوند کی کمائی کھاتی ہے لیکن تعریف ہمیشہ اپنے بھائی کی
کرتی ہے۔ جب کوئی شخص اپنے محسن کا شکر گزار ہونے کے بجائے نا شکری کرتا ہے یا کسی
اور کی بیجا تعریف کرتا ہے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
( ۲۰) خطائے بزرگاں
گرفتن خطا ست :
یعنی بزرگوں کی غلطی پکڑنا بجائے خود غلط ہے۔ بزرگوں کا احترام
ہماری تہذیب کا اہم حصہ ہے اور کہاوت اسی روایت کا اعتراف کر تی ہے۔
( ۲۱) خون سفید ہو گیا
ہے :
سفید خون بے مروتی کا استعارہ ہے۔ یعنی پرانی قرابتیں
بھول کر بیگانگی برتنے لگا ہے۔
No comments:
Post a Comment