چ ۔ کی کہاوتیں
(۱۹) چراغ تلے اندھیرا :
پرانے زمانے میں گھروں میں رات کو
چراغ جلائے جاتے تھے۔ چراغ کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے جب کہ وہ سارے گھرکو روشن کرتا
ہے۔اسی رعایت سے اگرکسی شخص سے ساری دُنیا کو فیض پہنچے لیکن اس کے قریب کے لوگ
محروم رہیں تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔اس کا پس منظر ایک حکایت بیان کرتی ہے۔
ایک سوداگر سفر کرتا ہوا ایک بادشاہ کے قلعہ کے پاس پہنچا تو رات ہو چکی تھی اور
قلعہ کا دروازہ بند کیا جا چکا تھا۔ا س نے قلعہ کی دیوار کے سایہ میں رات
گزارنے کی ٹھانی کہ بادشاہ کے ڈر سے یہاں کوئی بدمعاش ہمت نہیں کرے گا۔رات کو چور
اس کا سارا سامان چرا کر رفو چکر ہو گئے۔ صبح سوداگر اٹھا تو اپنی بدحالی کی فریاد
لے کر بادشاہ کے سامنے گیا۔بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ ’’تم قلعہ سے باہر کھلے میدان
میں آخر سوئے ہی کیوں ؟‘‘ اُس نے عرض کیا کہ ’’حضور! مجھ کو اطمینان تھا کہ
آپ کا اقبال میری حفاظت کرے گا اور کسی کو مجھے لوٹنے کی ہمت نہ ہو گی۔ مجھے خبر
نہیں تھی کہ چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے۔‘‘
( ۲۰ ) چرسی یار کِس کے، دم لگایا
کھسکے :
چرسی یعنی چرس کا نشہ کرنے والے۔ چرسی کسی کے
دوست نہیں ہوتے۔ انھیں تو بس چرس کا دم لگانے سے مطلب ہوتا ہے۔
جہاں یہ پورا ہوا پھر وہ کسی کے نہیں۔ یہ کہاوت مطلبی اور خود غرض شخص کے
لئے بولی جاتی ہے۔
( ۲۱) چڑھتے سورج کو سب پوجتے ہیں
:
سورج کی پرستش صبح کے وقت ہی کی جاتی
ہے۔ شام کو جب سورج ڈوب رہا ہو تو کوئی اس کو نہیں پوجتا کیونکہ وہ زوال کی
نشانی ہے۔ کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی صرف اُسی شخص کا دم بھرتا ہے جس کا
ستارہ عروج پر ہو۔ کسی شکست خوردہ اور زوال پذیر شخص کی جانب کوئی آنکھ اٹھا
کر نہیں دیکھتا۔
( ۲۲) چڑھ جا بیٹا سُولی پر، رام بھلی کرے
گا :
سُولی یعنی پھانسی کا تختہ۔ یہ جملہ لوگ تب کہتے
ہیں جب کوئی مشکل کام کرنا ہو لیکن اس کو خود انجام دینے کے بجائے کسی اور
کو تیار کرنے کی کوشش کی جائے۔ رام بھلی کرے گا یعنی اَللہ حافظ و ناصر ہے۔
No comments:
Post a Comment