د۔کی
کہاوتیں
(۳۷ ) دُودھ دیا سو مینگنیوں
بھرا :
مینگنی یعنی بکری کا فضلہ۔ کوئی اچھی چیز کسی کو دی جائے اور اس میں
خرابی نکل آئے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ اسی پر دوسری مثالیں قیاس کی
جا سکتی ہیں۔
(۳۸) :دودھ کی مکھی کی طرح
نکال پھینکنا :
اگر دودھ میں مکھی گر جائے تو اسے نکال پھینکتے ہیں
۔دودھ کی مکھی یہاں اچھی چیز میں بری چیز کی آمیزش کا استعارہ ہے۔ اسی
مناسبت سے اگر کسی شخص کو کہیں سے بیک بینی و دو گوش نکال دیا جائے تو بھی
کہتے ہیں کہ دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا۔
(۳۹) دوسرے کے پھٹے میں
پیر اَڑانا :
کسی کے پھٹے کپڑے میں پیر اَڑا یا جائے تو وہ
اور پھٹ جاتا ہے۔ کہاوت سے مراد دوسروں کے معاملات میں خواہ مخواہ دخل
اندازی ہے۔ ایسا کرنے سے معاملہ کے بہتری کے بجائے بات بگڑ نے کا امکان
زیادہ ہے۔
( ۴۰ ) دو میں تیسرا،
آنکھوں میں ٹھیکرا :
آنکھوں میں ٹھیکرا یعنی کھٹکنے والی چیز۔ اگر دو اشخاص
بیٹھے ذاتی گفتگو کر رہے ہوں تو کسی اور کا وہاں آ بیٹھنا مناسب نہیں
ہے۔اس کہاوت سے متعلق مرزا غالبؔ کا ایک لطیفہ مشہور ہے جو مرزا نوشہ
کے منھ بولے بیٹے زین العابدین خاں عارفؔ کی بہو معظم زمانی بیگم (عرف بُگا
بیگم)نے بیان کیا ہے۔بگا بیگم نے مرزا غالبؔ کی زندگی کا آخری دَور دیکھا
تھا۔ فرماتی ہیں کہ’’ برسات کے دن تھے، مینہہ بہت برسنے لگا۔ مرزا
صاحب بیٹھے بیوی سے باتیں کر تے تھے، میں یوں بیٹھی تھی
گاؤ تکیہ کے کونے سے لگی ہوئی۔ کہنے لگے ’’ایک بیوی،دو میں ، تیسرا آنکھوں میں
ٹھیکرا۔ بہو ! میں اور میری بیوی بیٹھے ہیں تم کیوں
بیٹھی ہو؟‘‘ اس پر میری ساس بولیں ’’ارے توبہ توبہ ! بڈھا
دیوانہ ہے۔ اسے تو ٹھٹھے کے لئے کوئی چاہئے۔ اب بہو ہی مل گئی۔‘‘ میں
اتنے میں اُٹھ کر کونے میں جا چھپی۔ اب اُنہیں یہ فکر کہ برسات
کا موسم اور کیڑے پتنگے کا عالم۔ مجھے ڈھونڈتے پھریں اور کہتے جائیں
’’ مجھے کیا خبر تھی کہ بہو اس بات کا اتنا برا مان جائے گی۔‘‘
No comments:
Post a Comment