د۔کی
کہاوتیں
( ۳۳) دودھیل گائے کی دو لاتیں
بھی سہہ لیتے ہیں :
دودھیل یعنی دودھ دینے والی۔ ایسی گائے اگر دو لاتیں
بھی مار دے تو مالک طوعاً و کرہاً برداشت کر لیتا ہے۔ اسی طرح
اگر کسی شخص سے اپنی کوئی غرض اٹکی ہو تو آدمی اُس کی دو کڑوی باتیں
بھی سُن لیتا ہے۔
( ۳۴) دُور کے ڈھول
سہانے :
ڈھول تاشے کی آواز دُور سے بھلی معلوم ہوتی ہے مگرپاس جائیں
تو شور سے کان پھٹنے لگتے ہیں۔ یعنی جو چیز دُور سے اچھی معلوم ہو، ضروری
نہیں ہے کہ وہ پاس سے بھی بھلی لگے۔ یہ کہاوت انسان پر بھی صادق آتی ہے کہ
چاہے وہ سرسری نظر سے دیکھنے میں کتنا ہی اچھا لگے جب تک اس کو قریب سے نہ
پرکھا جائے اس کی اصل معلوم نہیں ہوتی۔
(۳۵) دودھ کا جلا چھاچھ پھونک
پھونک کر پیتا ہے :
دودھ سے مکھن نکال لیا جائے تو باقی بچاہوا دودھ چھاچھ
کہلاتا ہے۔ اگر کسی شخص کا منھ گرم دودھ سے جل جائے تو وہ ٹھنڈی چھاچھ بھی
پھونک مار مار کر احتیاط سے پئے گا کیونکہ وہ بھی دودھ کی طرح سفید ہوتا ہے۔ مطلب
یہ ہے کہ اگر کسی معاملہ میں کوئی شخص نقصان اٹھائے تو اس سے ملتے جلتے
معاملہ میں وہ بہت محتاط رہتا ہے۔
(۳۶) دودھ کا دودھ اور
پانی کا پانی :
بازار میں دودھ کی مقدار بڑھانے کے لئے اس میں بے ایمان دوکاندار
پانی ملا دیتا ہے۔ اگر کسی طرح اس مرکب سے دودھ اور پانی الگ الگ کر دیے جائیں تو
اصل اور اس کی ملاوٹ ظاہر ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی معاملہ میں سچ اور
جھوٹ ملے ہوں اور انھیں الگ الگ کر دیا جائے تو اصل حقیقت معلوم ہو
جائے گی۔ ایک دوسری کہاوت میں اسے ’’ڈھول کا پول کھولنا ‘‘بھی کہتے ہیں ۔
ایک کہانی اس کہاوت سے وابستہ ہے۔ ایک دودھ والا دودھ میں بہت پانی ملا کر
گاہکوں کو دھوکا دیا کرتا تھا۔ ایک دن ایک بندر اس کی دوکان میں گھس آیا اور
اس کے پیسوں کا ڈبہ اٹھا کر ندی کنارے ایک درخت پر جا بیٹھا۔
دوکاندار نے بہت بہلایا پھسلایا لیکن بندر نے ڈبہ واپس نہ کیا بلکہ اس میں
سے روپے نکال نکال کر ندی میں پھینکنے لگا اور پیسے دوکاندار کی طرف۔
ایک شخص یہ تماشہ دیکھ رہا تھا۔اس نے دوکاندار سے کہا کہ ’’بندر ٹھیک تو کر رہا
ہے۔ دودھ کے دام تمھاری طرف پھینک رہا ہے اور پانی کے روپے پانی میں۔ یعنی دودھ کا
دودھ اور پانی کا پانی۔‘‘
No comments:
Post a Comment