ہلایا
جب مری آہ و فغاں نے
زمیں
پکڑی ہے کیا کیا آسماں نے
تعجب ہے
کہ اس بیداد پر بھی
تجھے
اچھا کہا سارے جہاں نے
لیا جب
نام اُس شیریں دہن کا
لئے ہیں
کیا مزے مری زباں نے
کھُلے
وہ کھل گیا جب بھید اُن پر
اُنھیں
کھولا مرے رازِ نہاں نے
مِلی یہ
داد مرا قصہ سن کر
اُڑائی
نیند تیری داستاں نے
وہ یہ
سمجھے سبھی عاشق ہیں سچّے
بچایا
سب کو میرے امتحاں نے
وہ جب
تربت پر آئے میں نہ اُٹھا
سُبک
مجھ کو کیا خواب گراں نے
نہ گڑنے
دی مری میت کئی دن
نہ
چھوڑی بد گمانی بد گماں نے
رہی جن
سے بہارِ باغ عالم
اُنھیں
پھولوں کو توڑا باغباں نے
ترے
ہاتھوں کو مہندی نے کیا لال
مرے
چہرے کو چشمِ خون فشاں نے
خیالِ
زلفِ شب گوں شب کو آیا
مجھے
مارا بلائے ناگہاں نے
مرا
رونا کہا ا ُس بد گماں سے
ڈبویا
مجھ کو میرے راز داں نے
لباسِ
غیر میں دی مجھ کو خوشبو
تمھارے
گیسوئے عنبر فشاں نے
اکڑنا
دیکھ کر سرو چمن کا
بھرا
بُل کیا مرے بانکے جواں نے
حقیقت
میں تو اس قابل نہ تھا داغ
بہت کی
قدر شاہِ قدر داں نے
No comments:
Post a Comment