مجاز )اسرار الحق)
(1911-1955)
مجازؔ19نومبر1911میں قصبہ رودولی ضلع بارہ بنکی میں پیدا
ہوئے۔ان کا حقیقی نام اسرارالحق اور مجازؔ تخلص اختیار کیا۔
تعلیم کے لیے مجازؔ لکھنؤ آئے اور یہاں سے ہائی اسکول
پاس کیا۔ لکھنؤ سے اس قدر لگاؤ ہوا کہ مجازؔ نے اپنے تخلص میں لکھنؤ جوڑ لیا اور
مجازؔ لکھنوی کے نام سے جانے گئے۔مجازؔ نے 1935 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی
اے کیا تھا۔
1936میں دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ’آواز‘ کے
پہلے مدیر مجازؔ ہی تھے۔ انہوں نےکچھ وقت بمبئی انفارمیشن میں بھی کام کیا تھا اور
پھر لکھنؤ آکر ’نیا ادب‘ اور ’پرچم‘ کی ادارت کی۔ اس کے بعد دہلی میں ہارڈنگ لائبریری
سےمنسلک ہوئے تھے۔
3دسمبر 1955کو لکھنؤ میں مجازؔ ایک مشاعرے
میں شامل ہوئے تھے۔ اس کے دو دن بعد یعنی 5 دسمبر 1955کو وہ انتقال کرگئے تھے۔
مجازؔ کی مختصر زندگی کا خاصہ ان کی شاعری تھی۔ ان کی سب
سے بہترین نظم’آوارہ‘ ہے، جس کے چند بند 1953میں بنی فلم ’ٹھوکر‘ میں گلوکار طلعت
محمود کی آواز میں کافی مشہور ہوئے:
’’اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں‘‘
یہ شہر کی رات میں ناشادو ناکارہ پھروں
جگمگاتی دوڑتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں
مجازؔ نے بچوں کے لیے بھی شعر لکھے۔ ان کی مشہور نظم ’ریل‘
کے کچھ اشعار اس طرح ہیں:
پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیرلب گاتی ہوئی
جیسے موجوں کا ترنم جیسے جل پریوں کے گیت
ایک اک لے میں ہزاروں زمزمے گاتی ہوئی
جستجو میں منزل مقصود کی دیوانہ وار
اپنا سردھنتی، فضا میں بال بکھراتی ہوئی
الغرض دوڑتی چلی جاتی ہے بے خوف و خطر
شاعر آتش نفس کا خون کھولاتی ہوئی
No comments:
Post a Comment