مندر
میں
منتر بول میٹھے،
منتر بول میٹھے، من بھاتے
دُکھ کو دُور کہیں لے جاتے
آئیں پجاری، جائیں پجاری
سُکھ کی برکھا لائیں پجاری
منتر بول سے
پرم ایشور کے
کومل من کو رجھائیں پجاری
گائیں پجاری
منتر بول میٹھے۔
آئے پروہت دُوب جلائے
آرتی کو ہاتھوں میں اُٹھائے
رُن جھُن رُن جھُن کیسی صدا ہے ؟
دل کا گنبد گونج رہا ہے،
سُکھ کی آشا
سُکھ کا سپنا
ناچ رہی ہے، جھوم رہا ہے،
یوں گاتا ہے
منتر بول میٹھے
جاگ اُٹھی ہیں بیتی باتیں
یاد آتی ہیں پہلی راتیں
یاد آتی ہے دیوا داسی
دل ہے پیاسا آنکھ بھی پیاسی
سُکھ ساگر میں
اس مندر میں
میرے دل میں چھائی اُداسی،
دیوا داسی،
منتر بول میٹھے۔
(۱۹۴۰)
٭٭٭
No comments:
Post a Comment