اذیّت
زندگی ہے
درد
ادھورا نقشہ ہے اس دھرتی پر جیون کا
درد سے
موسم آتا ہے ہر ہستی کے ساون کا
ماتھے
پر چندن دیکھا آنکھ میں ڈورا انجن کا
ہر
سنگار ہے دیباچہ درد کے گہرے مخزن کا
سندرتا
تو دیکھتے ہی ملنا مقصد ہے من کا
ملنے کے
دُکھ اُجیالا پریم کے موہن آنگن کا
جگ کے
پہلے لمحوں میں دُکھ کی تان لرزتی تھی
اب تک
گونج فضاؤں میں ہلکے ہلکے سسکتی تھی
مستقبل
میں دُکھ ہو گا، دُکھ کی منزل تھا ماضی
دُکھ کے
بندھن سے پہلے جیون کب تھا، تھی دھرتی
بیتے
لمحوں میں جو بھی دیکھا درد کی مستی تھی
آنے
والے لمحوں کی قسمت بھی یوں لکھی تھی
اس
دھرتی پر جیون کا درد ادھورا نقشہ ہے
ہر ہستی
کے ساون کا موسم درد سے آتا ہے
(پابند
نظمیں )
No comments:
Post a Comment