اجنتا
کے غار
دھیان کی جھیل میں لہرایا کنول کا ڈنٹھل
سوچ آتی ہے مجھے کیوں ہوئی پُروا چنچل
دھیان کی جھیل میں ہر چیز ہے کومل شیتل
جیسے ناری ہو اٹھائے ہوئے امرت چھاگل
آج چھاگل سے ٹپک اٹھی ہیں ننھی بوندیں
دھیان کی لہریں ہیں یہ لاج سے رستی بوندیں
رستی بوندوں پہ نہیں اب مجھے کوئی قابو
شبِ فرقت میں چھلک آتے ہیں جیسے آنسو
پھیلتی جاتی ہے اب یاد کی چنچل خوشبو
دشت، ویران میں آ جاتے ہیں پہلے آہو
میلے کپڑوں کی طرح لٹکی ہوئی تصویریں
بِیتے دن رات مِرے سامنے لے آتی ہیں
کئی راجہ ہیں یہاں ایک ہی راجہ بن کر
ایک ہی تاج کے ہیرے ہیں کئی ہیرے ہیں
راج دربار ہو یا راج بھون ہو، دونو
ایک خوشبو سے بسے ہیں، وہی گرمی، خوشبو
جس نے دیوانہ بنایا ہے بھکاری کو مدام
بھید لیکن اسے معلوم نہیں ہوتا ہے
اس کی نظروں کو دیا ہے دھوکا
بھوک نے پیاس نے۔۔۔ (کیا کہتے ہو
جسے تم پیاس سمجھ بیٹھے ہو
وہ بھی اک بھوک ہے اب۔۔ جان لیا
میں فقط پوچھتا ہوں
پانی پینے کو نہیں ملتا تو کیا۔۔ ایک لنگوٹی تن کی
داسی کی یاد نہیں لا سکتی؟)
کیا کنول تال کا منظر نہیں دیکھا تو نے
بالوں کو پھول سجاتے ہیں مگر کانوں میں
ننھی کلیوں کے لٹکتے بُندے
لڑکھڑاتی ہوئی نظروں کو لیے جاتے ہیں
اس کنول تال میں جس کے سائے
پیڑ کی چھاؤں سے بھی بڑھ کے سکوں لاتے ہیں
بات کیا ہے کہ وہ جیون جس کو
مشعلیں اپنے اجالے ہی سے دکھلاتی تھیں
دھیان کی لہر کے اک نرم جھکولے ہی سے
جاگ اُٹھا ہے
رات چھائی تھی مگر
رات بھی دن کی طرح نور کو لے آئی ہے
نُور تاروں کا بھی ہے، چاند بھی ہے، سورج بھی
تینوں اک دوسرے سے بازی لیے جاتے ہیں
چاند رانی ہے تو سورج راجا
داسیاں تاروں کی مانند نظر آتی ہیں
ان کی حرکات کے مفہوم مجھے کیا معلوم
میرا مفہوم ہے صرف ایک ہی بات
ایک ہی بات۔۔۔ مگر یہ تو ہے میرے بس کی
ایک ہی بات سے سو باتیں بنا لوں دن میں
اسی اک بات سے یاد آیا ہے
ناچنے والی کا ہلکا سا اشارہ مجھ کو
ناچ بھی کیا تھا وہ پھولوں کی لڑائی تھی مگر اس میں بھی
ہاتھ ہلتے تھے تو اک پوری لغت مجھ کو نظر آتی تھی۔۔۔
سُست مفہوم بھی تھے، تیز بھی تھے کچھ مفہوم
جب کسی نرم کلائی کی سنبھلتی لے میں
موج آتے ہوئے رک جاتی تھی
’’چھوڑ دو۔ چھوڑ دو‘‘ آواز یہی آتی تھی
اور وہ کانوں کی کلیاں اس پر
کھل کے جو بالوں میں دو پھول بنی بیٹھی تھیں
ایک بے نام سی لرزش کھا کر
کانپتے کانپتے رک جاتی تھیں، کہہ جاتی تھیں
وہی اک بات جو پہلو میں چھپائے ہوئے سو باتوں کو
رات کو دن کی طرح نور سے بھر دیتی ہے
دل پہ اک سحر سا کر دیتی ہے
کیا کنول تال کا منظر نہیں دیکھا تو نے
پیڑ بھی، پتے بھی ہیں، پودے بھی لہراتے ہیں
سوکھتے جاتے ہیں جو پتّے وہ گر جاتے ہیں
یہ سماں دیکھ کے اک دھیان مجھے آتا ہے
پہلے چپٹی تھی زمیں، سیب نے گر کر اس کو
کرّ ۂ ارض کی صورت دے دی
ایک ہی جست میں طے ہو گیا رستہ سارا
دل نے چھنا کی طرح اسپِ سبک سیر کو جب لیس کیا
راجدھانی میں کپل وستو کی
جلوۂ قلبِ جہاں مجھ کو نظر آنے لگا
ایک ہی رنگ پہ تھا وقت کے دریا کا بہاؤ
کس میں جرات تھی کہ اس سیل کو وہ روک سکے
ایک انسان مگر آیا اسی نے روکا
بن گیا وقت بھی اک ذہن کے دریا کا بہاؤ
میں نکل آیا ہوں اب سنگ کی محرابوں سے
جن کا اک گہرا تصور ہے مرے ذہن کے آئینے میں
ایک ہی جست نے پہنچایا ہے میرے دل کو
راجدھانی میں کپل وستو کی
آج بر آئی ہے رانی کی تمنا شاید
شہر ہنگامۂ عشرت ہے، ہر اک پیرو جواں
رقص و نغمہ کے دھندلکے میں چھپا جاتا ہے
گویا چکر یہ الٹ کر نہ چلے گا ہر گز
ان کا اندیشہ تھا اک خام خیال
پھر وہی دور پلٹ آیا ہے، اب راجکمار
رشکِ فردوس محل کی زینت
یعنی شہزادی یشودھا کو لیے آتا ہے
ان کا اندیشہ تھا اک خام خیال
پھر وہی دور پلٹ آیا ہے
اب مہاراجہ نے پوتے کی مسرت کا سماں دیکھا ہے
لیکن افسوس کہ بیٹے کے جنم پر اس کے
عیش میں ایک چبھن درد کی در آئی تھی
وہم کیسے کہیں ؟، اک پنڈت نے
زائچہ دیکھ کے اک بات کہی تھی سب سے
اور مہاراجہ کے فرمان کی ہی دیر تھی اک چشمِ زدن میں
دیکھو
بن گیا جھیل کی آغوش میں اک راج محل
کس کو معلوم تھا اک آنکھ جھپکتے میں۔۔۔ تمام
نقشۂ عیش پہ یوں اوس ہی پڑ جائے گی
سجی محفل ہی اجڑ جائے گی
اک اچٹتی سی نظر۔۔ جاگ نہ اُٹھے۔۔ چل دو
یہ خیال آتے ہی چھنا کا خیال آیا اک
اور پھر اپنے وفادار ملازم سے بھی رخصت ہو کر
چھوڑ کر
زیست کے ہنگاموں کو
چل دیا دور کہیں۔۔ دور بہت دور کہیں
سوچتا جاتا ہے وہ۔۔ پاؤں زمیں پر اس کے
گرتے پھولوں کی طرح پڑتے ہیں
گرتے پھولوں کو مگر داسیاں چن لیتی تھیں
کہ کہیں دیکھ نہ پائے ان کو
سیر کرتے ہوئے وہ راجکمار
زندگی سے جسے بچپن میں، جوانی میں رہی نادانی
مجھ کو کیوں وقت کی رفتار نے الجھایا ہے
پھر سے لذت کا خیال آیا ہے
آم کے پیڑ، کنول تال کنارے جم کر
سرسراتے ہوئے پتوں کی صدا سے پیہم
اسی اک سوچ میں کھو دیتے ہیں
آم کیسے ہیں، کنول کیسے ہیں
اور میں سوچتا ہوں
آم شیرینی سے امرت کا مزہ دیتے ہیں
اور کنول جلوہ دکھاتے ہی ہر اک بات بھلا دیتے ہیں
یہ کنول تال پہ تو آم کا سایہ مت جان
کیا تجھے یاد نہیں آتی ہے
گیسوؤں کی وہ گھنیری چھاؤں
جس کے پردے میں کنول کھلتا ہے، ہنس دیتا ہے
زندگی کیا ہے کوئی اس کی خبر لیتا ہے
ایسے لمحوں میں تو صرف ایک ہی بات
وہی اک بات جو پہلو میں چھپائے ہوئے سو باتوں کو
رات کو دن کی طرح نور سے بھر دیتی ہے
دل پہ اک سحر سا کر دیتی ہے
اور پھر اس کی خبر دیتی ہے
زندگی کیا ہے یہ تو جان گیا
سوچ کیا جان لے اب بھید نیا
موت کیا ہے۔۔ مگر اس بات کو کیا جانے گا
موت کیا ہے۔۔۔ کوئی یہ پوچھتا تھا
اور پھر وقت کی رفتار الجھ کر مجھ کو
یہی دیتی ہے جواب
زیست کے پیڑ سے گرتا ہوا سیب
دیکھ کر جس کو کئی گیان کے چشمے پھوٹے
مجھ کو کیوں وقت کی رفتار نے الجھایا ہے
ابھی دل سینکڑوں برسوں کی خلا پھاند کے لوٹ آیا ہے
ایک ہی وقت سے۔ اک دور سے۔ رغبت کیوں ہے
ایک ہی نور مرے ذہن پہ کیوں چھایا ہے
نور کے رنگ کئی ہیں کوئی آئے۔۔۔ آئے۔۔۔
نور کا رنگ ہے صرف ایک، بدل دیتا ہے اس کو ماحول
وجہ تحریک ہیں پژ مردہ نقوش
علم ہی سینۂ ماضی میں لیے جاتا ہے
ورنہ فردا بھی مجھے دوش کی مانند نظر آتا ہے
جیسے اب دوش نظر آتا ہے دیوار کی تصویروں میں
در و دیوار کی تصویریں بتاتی ہیں مجھے
وقت کی رفتار کے ساتھ
ایک انسان لڑکپن سے جوانی میں گیا
اور جوانی کے گزرنے پہ بڑھاپا آیا
ہاں وہی راجکمار۔۔ باغ میں جس کے نہ تھی
کوئی بھی پژ مردہ کلی
دوش و فردا کی مصیبت ہی سے آزاد ہوا
تین منظر تھے فقط۔۔۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین
نوعِ انساں کے نصیبے کو بدلنے والے
نوعِ انساں تو ہے جاہل کا دماغ
جس نے بھی گیان کی اک بات کہی
دار پر اس کو چڑھا کر مارا
ایک کہتا تھا زمیں گول ہے اور گھومتی ہے
نوعِ انساں نے اسے صفحۂ ہستی سے مٹا کر چھوڑا
لیکن افسوس زمیں گول تھی اور گھومتی تھی
اس کا چکر بھی مگر نور نہیں لا سکتا
اس اندھیرے میں ازل سے جو ابد تک پھیلے
نوعِ انساں بھی تو اک گار کی مانند ہے۔۔ تاریک مقام
اس کی تاریکی اجالے کو دبا سکتی نہیں ہے لیکن
کیا اسی واسطے کچھ گیانی یہاں آئے تھے
تاکہ ان غاروں میں چپ چاپ۔ جہاں والوں سے
ہوکے روپوش۔۔۔ سفر طے کر لیں
لیکن افسوس یہاں بھی ان کو
نہ ملا مایا سے نروان۔۔۔ یہی دیواریں
ان کے افسردہ دلوں کی غماز
آج تک دشت میں سر مارتی ہیں
کوئی اتنا تو بتائے مجھے۔۔۔ اس داسی کو
اس طرح سامنے لے آنے کا مقصد کیا تھا
اس کی گردن سے پھسلتے ہوئے جاتی ہے نظر
ایک وادی سے گزرتے ہوئے بس بس۔۔ خاموش
سوچنے والوں کو صرف ایک سزا کافی ہے
دار پر ان کو چڑھا دیتی ہے
نوعِ انساں۔۔ وہی جاہل کا دماغ
ہاں۔۔۔ وہ کیوں غاروں میں پابند ہوئے تھے آ کر
سوچتے سوچتے جاگ اٹھتی تھیں دل میں یادیں
ایک جو بھاگ کے دربار سے آیا تھا یہاں
سوچتا تھا وہ محل کی داسی
جس پہ دربار میں راجے کی نظر رہتی تھی
کتنی سندر تھی، بڑی سندر تھی
ایک جو رانی سے اک رات ملا تھا چھپ کر
اس جگہ آ کے نقوش اس کے بنا بیٹھا تھا
اور اب اس کی بنائی ہوئی صورت پہ بھی اپنا دامن
وقت کی رات نے پھیلایا ہے
اسی دیوار پہ اس ٹکڑے پہ میں دیکھ رہا ہوں جس کو
منتری ایک تھا راجہ کا مگر اس کو بھی
راس آئی نہ ہوا، راج کا تانا بانا
ایک مکھی کی طرح نوچ کے لے آیا یہاں
اور اب دیکھ رہا ہوں میں بھی۔۔۔۔
اس نے جو نقش بنائے تھے وہ سب ہیں باقی۔۔۔۔
ایک راجا کا جلوس اور ہیں اس کے آگے
اک بھکاری کو ہٹاتے ہوئے دو گھوڑ سوار
کشمکش زیست کی ہمراہ یہاں لائے تھے
پھر وہ کیوں غاروں میں پابند ہوئے تھے آ کر؟
میں بھی پابند ہوں۔ کیوں وقت کی رفتار نے الجھایا ہے
میں نکل آیا ہوں ان سنگ کی محرابوں سے
جن میں کندہ ہے کہانی دل کی
دل وہی جس کے ہزاروں جلوے
دھندلی دیواروں نے اک پل میں دکھائے ہیں مجھے
ان کے اک گہرے تصور کو میں لے جاؤں گا
اور پھر گھر کے سکوں میں جا کر
ایک ہی دھیان مجھے آئے گا۔۔ اک ضدی دھیان۔۔
پہلے چپٹی تھی زمیں سیب نے گر کر اس کو
کرۂ ارض کی صورت دے دی
دھیان تو آتے ہی آئے گا مری آنکھوں میں
سیب ایک اور ہی شے بن کے نظر آتا ہے
اور تو سامنے لپٹی ہوئی ضدی مورت۔۔۔
چند آسودہ خطوط۔۔۔
جس نے بیتی ہوئی صدیوں میں مجھے الجھایا
تو ہی داسی ہے تو ہی رانی ہے
رات کی مہلتِ یک لمحہ کو انبار بنا دیتی ہے
رات کے جانے پہ بیزار بنا دیتی ہے
میرے دل کو۔۔۔ میرا دل راجہ ہے
اس کنول تال کے پژ مردہ کنارے یہ نشستہ ہے مگر
بات اس کی نہیں سنتا کوئی
اور یہ بیٹھے ہوئے سوچ کی لہروں میں بہا جاتا ہے
تیری بے باک اداؤں کا جلوس
دیکھتے دیکھتے آنکھوں سے نکل جاتا ہے
اور پھر دھیان مجھے آتا ہے
لیٹے لیٹے جو تری آنکھوں میں نیند آ جائے
میں تجھے چھوڑ کے چل دوں، کہیں چل دوں،
چپ چاپ
اک اچٹتی سی نظر جاگ نہ اُٹھے چل دو
یہ خیال آتے ہی چھناکا خیال آتا ہے
وہ تو خوابیدہ ہے، انجان ہے ان باتوں سے
آؤ اب سوئیں بہت رات گئی۔۔۔ نیند آئی
(تین رنگ)
No comments:
Post a Comment