ابوالہول
بچھا ہے صحرا اوراُسمیں ایک ایستادہ صورت بتا رہی ہے
پرانی عظمت کی یادگار آج بھی ہے باقی
نہ اب وہ محفل، نہ اب وہ ساقی
مگر انہی محفلوں کا اک پاسباں کھڑا ہے
فضائے ماضی میں کھو چکی داستانِ فردا
مگر یہ افسانہ خواں کھڑا ہے
زمانہ ایوان ہے، یہ اس میں سنا رہا ہے پرانے نغمے
میں ایک ناچیز و ہیچ ہستی
فضائے صحرا کے گرم و ساکن، خموش لمحے
مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے
ابھی وہ آ جائیں گے سپاہی؍وہ تُند فوجیں
دلوں میں احکام بادشاہوں کے لے کے
آ جائیں گی اُفق سے
ہوائے صحرا نے چند ذرے کیے پریشاں
ہے یا وہ فوجوں کی آمد آمد؟
خیال ہے یہ فقط مِرا اک خیال ہے، میں خیال سے
دل میں ڈر گیا ہوں
مگر یہ ماضی کا پاسباں پُر سکون دل سے
زمیں پہ اک بے نیاز انداز میں ہے قائم
No comments:
Post a Comment