ایک تصویر
سولہ سنگاروں سے سج کر
اک سیج پہ گوری بیٹھی ہے
پیتم آئے نہیں،
آئیں گے، چپکی رستہ تکتی ہے
لاکھ لگا کر پاؤں سجائے
جگمگ جگمگ کرتے ہیں
پریمی دل کو گرم ’’ابلتے
‘‘ وحشی خون سے بھرتے ہیں
نینوں میں کاجل کے ڈورے
انگ انگ برماتے ہیں
ننھے، کالے کالے بادل جگ
پر چھائے جاتے ہیں
ماتھے پر سیندور کی بندی
یا آکاس کا تارا ہے
دیکھ کے آ جائے گا جو
بھولا بھٹکا آوارہ ہے
نرم، رسیلے، صاف، پھسلتے
گال پہ تل کا بھنورا ہے
رُوم رُوم سندر کا
سنگاروں سے سنورا سنورا ہے
کانوں میں دو بُندے جیسے
ننھے منے جھولے ہیں
چنچل اچپل سندرتا کے سکھ
میں سب کچھ بھولے ہیں
چوڑا بیل بنا لپٹا ہے
بانہیں گویا ڈالی ہیں
بیل اور ڈالی کی روحیں
یوں مست ہیں مد متوالی ہیں
لیکن پیتم آئے نہیں ہیں،
آئیں گے، آ جائیں گے
اندر نگر کی خوشیوں والی
بستی آ کے دکھائیں گے
پھر پاؤں کی پازیبیں
پریمی کو راگ سنائیں گی
میٹھے لمحوں کی باتوں کے
گیتوں سے بہلائیں گی
(۱۹۳۶ء)
No comments:
Post a Comment