محبت
زرد چہرہ شمع
کا ہے اور دھندلی روشنی
راہ میں
پھیلی ہوئی،
اک ستونِ
آہنیں کے ساتھ استادہ ہوں میں،
اور ہے میری
نظر
ایک مرکز پر
جمی،
آہ اک جھونکا
صبا کا آ گیا
باغ سے
پھولوں کی خوشبو اپنے دامن میں لئے
ساری بستی
نیند میں بے ہوش ہے
راہ رَو کوئی
نہیں،
راہ سب سُونی
ہوئی،
آسماں پر
حکمراں ہے شب کی گہری تیرگی،
اور فضا میں
خامشی کے سانس کی آواز ہے،
اور ہے میری
نظر
ایک مرکز پر
جمی،
سامنے
روزنِ دیوار
سے
ایک سایہ مجھ
کو آتا ہے نظر
(۱۹۳۷ء)
No comments:
Post a Comment