آتشِ عجم
شبِ سیہ کے اُمڈتے ہوئے اندھیروں میں
دل و نظر نے اُمیدوں کے کتنے خواب بُنے
خرد کے ہاتھ میں جب آخری چراغ بجھا
جنوں نے عزم کے ذرّوں سے آفتاب چُنے
ہوس کی تیرہ نگاہوں کے رینگتے سائے
بڑھے تو بجھتے شراروں نے آگ برسائی
فضا نے جب بھی ارادہ کیا کچلنے کا
تو ڈوبتی ہوئی نبضوں میں برق لہرائی
خیال تاکہ اگر تند آندھیاں بھی اُٹھیں
تو ذرّے سُرخ بگولوں کا روپ لے لیں گے
ہزار بادِ مخالف کا زور ہو لیکن
سفینے شدّتِ طوفاں کو مات دے دیں گے
حیات دست و گریباں ہوئی قضا سے مگر
ہزار سانپ نِکل آئے آستینوں سے
بہت قریب تھی ساحل کی روشنی لیکن
سفینے جھوم کے ٹکرا گئے سفینوں سے
اس اختلافِ بہم کی کڑی کشا کش میں
وہ ولولے وہ شرر سرد ہو گئے آخر
وہ ذرّے جن کو فضاؤں میں رقص کرنا تھا
بگولے بن نہ سکے گرد ہو گئے آخر
بہ ایں ہمہ نہ رُکے گی اس انقلاب کی رو
اس انقلاب کی ضو تیرگی مٹائے گی
جو آگ تیل کے چشموں کو چوا کے گزری ہے
سمندروں کی تہوں کو بھی چِیر جائے گی
٭٭٭
No comments:
Post a Comment