طلسمِ ہو شربا
اور اُڑتے ہی اُجالے میں کہیں ڈوب گیا
ابھی اک شاخ کے سائے سے سرکتا ہوا سانپ
پاس بہتے ہوئے نالے میں کہیں ڈوب گیا
گنگناتے ہوئے نالے کا سنہرا پانی
دیکھتے دیکھتے اک جھیل بنا نہر بنا
یوں اُبھر آئے کناروں پہ دمکتے ایواں
ایک اُجڑے ہوئے خطے میں نیا شہر بنا
یہ فصیلوں میں گھرا راج محل کس کا ہے
یہ پُر اسرار در و بام انوکھے فانوس
بربط و چنگ و خم و جام لیے دست بدست
منتظر کس کا ہے یہ زہرہ جبینوں کا جلوس
میں شہنشاہِ زمن ہوں کسے معلوم نہیں
ہر طرف موجبِ تعمیل ہیں فرمان مرے
میرے ادنیٰ سے اشارے پہ ہیں سب رقص
کناں
یہ سپاہی، یہ حسینائیں، یہ دربان مرے
کوئی ہے! کون؟ زرینہ نظر افروز کنیز
جیسے مینائے مئے ناب دھری ہو کوئی
یہ پریشان سی زلفیں یہ برہنہ سینہ
جس طرح قاف کی آوارہ پری ہو کوئی
خادمہ! آج سے اس قصر کی تو ملکہ ہے
آ مجھے اپنی گرہ گیر لٹوں میں کَس لے
آ مرے جسم سے اک سانپ کی مانند لپٹ
اور تڑپ کر مرے بیتاب لبوں کو ڈس لے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment