خیر مقدم
قصیدہ نویسوں نے مل کر یہ سوچا
کہ پھر آج وہ ساعتِ جانستاں آ گئی ہے
جب اُن سے کوئی اُن کا آقا جُدا ہو رہا ہے
وہ آقا؟
کہ جس کی مسلسل کرم گستری سے
کوئی خادمِ خاص ہو یا کہ ادنیٰ ملازم
کسی کے لبوں پر کبھی کوئی حرفِ شکایت نہ آیا
وہ آقا کہ جس کی کشادہ دلی نے خزانے لٹائے
وہ آقا کہ جس کی سخاوت نے سب کے دلوں اور دماغوں
سے حاتم کے مفروضہ قصّے بھلائے
اگرچہ وہ نوشیرواں کی طرح شہر میں کو بُکو
بھیس بدلے نہیں گھومتا تھا
مگر پھر بھی ہر سمت امن و اماں تھا
اگرچہ جہانگیر کی طرح اُس نے
کوئی ایسی زنجیرِ زر قصرِ شاہی کے باہر نہ لٹکائی تھی
جس کی ہلکی سی جنبش بھی انصافِ شاہی میں طوفاں اُٹھاتی
مگر پھر بھی ہر گھر میں عدل و مساوات کا سائباں تھا
اگرچہ کبھی وہ جھروکے میں بیٹھے
رعایا کو رُوئے مبارک کے درشن سے مجبورِ سجدہ نہ کرتا
مگر پھر بھی ہر دل پہ وہ حکمراں تھا
وہ جانِ جہاں تھا بڑا مہرباں تھا
قصیدہ نویسوں نے سوچا
کہ آخر وہ لمحات بھی آ گئے ہیں
جب اُن سے بچھڑنے کو ہے اُن کا دیرینہ آقا
تو وہ آج اُسے کون سا ایسا نایاب تحفہ کریں پیش جس سے
رہیں تا ابد یاد آقائے عالی کو
اپنے وفادار پاپوش بردار خادم
قصیدہ نویسوں نے سوچا
کہ وہ یوں تو عہدے میں ہیں
قصرِ شاہی کے جارُوب کش سے بھی کہتر
مگر عالمِ کلک و قرطاس کے بادشہ ہیں
وہ چاہیں تو اپنے قلم کے اشارے سے
ذرّوں کو ہم رُتبۂ مہر و مہتاب کریں
وہ چاہیں تو اپنے تخیل کے جادو سے
صحراؤں کے خشک سینوں کو پھولوں سے بھر دیں
وہ چاہیں تو اپنے کمالِ بیاں سے
فقیروں کو اورنگ و افسر کا مالک بنا دیں
وہ چاہیں تو اپنے فسونِ زباں سے
محلاّت کے بام و دیوار ڈھا دیں
وہ چاہیں تو یکسر نظامِ زمانہ بدل دیں
کہ وہ عالمِ کلک و قرطاس کے بادشہ ہیں
یہی ہے وہ ساعت کہ وہ اپنے
محبوب آقا کی تعریف و توصیف میں
آسمان و زمیں کو ملائیں
کہ وہ اپنی اپنی طبیعت کے جوہر دکھائیں
کہ وہ اپنے آقا سے بس آخری مرتبہ داد پائیں
مگر پھر قصیدہ نویسوں نے سوچا
کہ وہ تو ہیں عہدے میں ایوانِ شاہی
کے جاروب کش سے بھی کہتر
انہیں کیا کوئی آئے یا کوئی جائے
کہ اُن کا فریضہ تو ہے صرف
آقائے حاضر کی خدمت گزاری
کہ ان کا فریضہ فقط تاج اور تخت کی ہے پرستش
تو پھر مصلحت ہے اِسی میں
کہ اپنے قصیدوں سے آقائے نو کا کریں خیر مقدم
٭٭٭
No comments:
Post a Comment