کھنڈر
عبث کیوں اُلٹتے پلٹتے ہو جھوٹی روایات
کی عظمتوں کے کھنڈر
یہاں کچھ نہیں ہے
یہاں تم نہ پاؤ گے کوئی خزانہ
نہ شداد کی جنتِ گمشدہ کا کوئی لعل و
در سے جڑا آستانہ
نہ فرعون کا کوئی خفیہ خزانہ
نہ قاروں کا کوئی دفینہ
نہ جمشید کے جام و مینا
نہ نمرود کے باغِ آغوش کی چہچہاتی ہوئی
کوئی الّھڑ حسینہ
یہاں کچھ نہ ڈھونڈو
یہاں کچھ نہیں ہے
یہاں خشک و ویران خِطّوں میں
مدّت سے خانہ بر انداز عفریت چاروں طرف
خیمہ زن ہے
یہاں سالہا سال سے قرن ہا قرن سے
وحشت انگیز اوہام سایہ فگن ہیں
یہاں بے شمار اُلّوؤں کے بسیرے ہیں
چمگادڑوں کے ٹھکانے ہیں اور
گیدڑوں نے کئی غار کھودے ہوئے ہیں
جو دن کے دھند لکوں میں شب کی سیاہی
میں آسیب صورت
کبھی ایک ایک اور کبھی سب کے سب مل کے
یوں چیختے ہیں
کہ جیسے بنی نوع انساں کی تخریب پر
نوحہ گر ہوں
یہاں کوئی تپتی پوئی دوپہر ہو کہ سرما
کی تاریک و مفلوج شب ہو
کبھی کوئی ابرِ خراماں نہ برسا نہ
چھایا
یہاں کوئی شعلہ نہ بھڑکا نہ کوئی چراغِ
سحر ٹمٹمایا
کہ جیسے ہمیشہ پر افشاں رہا ہو یہاں
اجنبیت کا گھمبیر سایہ
کہ اس سر زمیں کی فضا میں خلا میں کبھی
بھی کوئی بھی تغیر نہ آیا
مگر یہ کھنڈر
روزِ اوّل سے ہی
پتّھروں اور اینٹوں کے انبار ہائے
پریشاں نہیں تھے
فقط ادھ کٹے بُت شکستہ ستوں ٹوٹے پھوٹے
ظروف
اور جھکے بام و در یونہی سردر گریباں
نہیں تھے
یہاں صرف ویرانیوں کے مناظر ہی تاریخِ
ماضی کے عنواں نہیں تھے
یہ وہ سر زمیں ہے
کہ جس پر زمرّد کے یاقوت کے تخت جلوہ
فگن تھے
یہاں سنگِ سرخ اور مر مر کے بے مثل و
نادر محلاّت
گلکاریوں سے مرصع تھے معراجِ فن تھے
یہاں بے بہا اور نایاب قالین فرشِ رہِ
کاخِ فرمانروائے زمن تھے
یہاں ریشم و اطلس و پرنیاں اور دیبا و
زربفت و سنجاب و کمخواب
کے بے نظیر اور عریاں ذخیرے شکن در شکن
تھے
یہاں لہلہاتے ہوئے گلستاں رشکِ باغِ
عدن تھے
یہاں سونے چاندی کے ڈھیروں میں لعل و
جواہر میں
تلتی کنیزوں کے گلرنگ چہرے فضا تاب
سینے سنہرے بدن تھے
اور ان کی حفاظ کی چوبی صلیبیں تھیں
زندانِ آہن تھے دار و رسن تھے
یہاں کاس و قیتار کی گرم تانوں سے جام
و سبو کے فسانوں سے
عیش و نشاط و مسرّت کے جشنِ چراغاں
منائے گئے ہیں
یہاں خوش گلو اپسراؤں کے ہر تارِ گیسو
سے تزئینِ بربط روا تھی
یہاں زندگی صرف زخمِ نوا تھی!!
یہاں اب ادب با سلیقہ غلاموں نے سجدے
کئے اور ثبوتِ وفا کے لئے گردنیں تک کٹا دیں
مگر رحم دل اور کشادہ دل آقاؤں کی عدل
و انصاف سے
جگمگاتی جبینوں پہ کوئی شکن تک نہ آئی
بہ ایں حال بھی مطمئن تھی خدائی
مگر وقت کی پے بہ پے کروٹوں نے کئی گل
کھلائے
کبھی تو ہلاکو و چنگیز و تیمور نے
بربریت کے پرچم اُٹھائے
کبھی تورماں اور نادر کی جرار فوجوں نے
یلغار کی شہر لوٹے جلائے
تباہی کے دف صورِ محشر کی صورت ہر اک
سمت بھونچال لائے
بگولوں کے دامن میں امن و سکوں کے
درخشندہ فانوس جلنے نہ پائے
اور اپنی روایات کے تلخ و تیرہ دھوئیں
چھوڑ کر بجھ گئے مٹ گئے ہیں
یہ کہنہ روایات جن کی گھنی ظلمتوں میں
نہ جادہ نہ منزل
غبارِ رواں کی طرح چھا رہی ہیں
دلوں کو دماغوں کو نظروں کو بھٹکا رہی
ہیں
اور ان کی جلو میں نہ لیلا نہ محمل
نہ جذبِ تجسّس کا حاصل
یہاں کچھ نہیں کچھ نہیں ہے
فقط کچھ کھنڈر ابنِ آدم کی تاریخ پہ
منفعل ہیں
٭٭٭
No comments:
Post a Comment