ملوکیت کے محل کی گنہگار کنیز
وہ جُرم کیا تھا کہ تجھ کو سزائے مرگ
ملی
وہ راز کیا تھا کہ تعزیرِ ناروا کے
خلاف
تری نگاہ نہ بھڑکی تری زباں نہ ہلی
وہ کون سا تھا گناہِ عظیم جس کے سبب
ہر ایک جبر کو تُو سہہ گئی بطیبِ دلی
یہی سُنا ہے بس اتنا قصور تھا تیرا
کہ تُو نے قصر کے کچھ تلخ بھید جانے
تری نظر نے وہ خلوت کدوں کے داغ گنے
جو خواجگی نے زر و سیم میں چھپانے تھے
تجھے یہ علم نہیں تھا کہ اِس خطا کی
سزا
ہزار طوق و سلاسل تھے تازیانے تھے
یہ رسم تازہ نہیں ہے اگر تری لغزش
مزاجِ قصر نشیناں کو ناگوار ہوئی
ہمیشہ اُونچے محلاّت کے بھرم کے لئے
ہر ایک دَور میں تزئینِ طوق و دار ہوئی
کبھی چُنی گئی دیوار میں انار کلی
کبھی شکنتلا پتھراؤ کا شکار ہوئی
مگر یہ تخت یہ سلطاں یہ بیگمات یہ قصر
مؤرخین کی نظروں میں بے گناہ رہے
بفیضِ وقت اگر کوئی راز کھُل بھی گیا
زمانے والے طرفدارِ کجکلاہ رہے
ستم کی آگ میں جلتے رہے عوام مگر
جہاں پناہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment