آنکھ ملے آنسو بھر آئیں
ہم یہ تاب کہاں سے لائیں
ہم راہ تمہاری تکتے تکتے اوب گئے
پورب میں سپیدی پھیلی ، تارے ڈوب گئے
اب تو پڑے گی تجھ سے نبھانی
سپنوں کی رانی ، اے سپنوں کی رانی
دودھیا فرش پہ مکھن سے تھر کتے پاؤں
بحر کاہل کے سوا حل کے افیمی باسی
قسمت مشرق اقصی کے خداوند بنے
صبح کا سرخ ستارہ ہوا پیکن سے طلوع
وٹیکن کا تو ہے فتووں کی تجارت پہ مدار
کیا ہوئے وہ تری بھٹکی ہوئی بھیڑوں کے شبان
No comments:
Post a Comment