حال دل جس نے سنا گر یہ کیا
ہم نہ روئے ہاں ترا کہنا کیا
یہ تو اک بے مہر کا مذکورہ ہے
تم نے جب وعدہ کیا ایف کیا
پھر کسی جان وفا کی یاد نے
اشک بے مقدور کو دریا کیا
تال دو نینوں کے جل تھل ہو گئے
ابر رسا اک رات بھر برسا کیا
دل زخموں کی ہری کھیتی ہوئی
کام ساون کا کیا اچھا کیا
آپ کے الطاف کا چرچہ کیا
ہاں دل بے صبر نے رسوا کیا
No comments:
Post a Comment