زلیخا نے یوسف علیہ السلام کے عشق میں مجبور ہو
کر یوسف یوسف علیہ کا دامن پکڑ لیا اور اپنی خواہش کا اظہار اس قدر شدت سے کیا کہ
آپ لرز اٹھے۔
زلیخا کے پاس سنگ مرمر کا بت تھا جس کی وہ صبح و شام پوجا کرتی۔ اس کی آرتی اتارتی۔
دریائے نیل کی سطح پر تیرتے ہوئے کنول کے پھول اس کے چرنوں میں رکھتی، عطر چھڑکتی
لیکن جونہی اس نے حضرت یوسف کا دامن پکڑا تو بت کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ مقصد یہ
تھا کہ اس کا معبود اسے اس حالت میں نہ دیکھ سکے۔ وہ بت سے حضرت یوسف علیہ السلام
کے ساتھ دست درازی کی چھپانا چاہتی تھی۔
اس نازک صورتحال سے حضرت یوسف علیہ السلام بہت رنجیدہ ہوئے۔ سر پکڑ کر رہ گئے۔ زلیخا جذبات کی رو میں بے اختیار آپ کے پاؤں چومنے لگی اور کہنے لگی۔
"اتنے سنگدل نہ بنو، وقت اچھا ہے، اسے ضائع نہ کرو۔ میری دلی مراد پوری کرو۔"
حضرت یوسف علیہ السلام رو پڑے اور فرمایا۔
"اے ظالم! مجھ سے ایسی توقع نہ رکھ۔ تجھے اس بت سے تو شرم آتی ہے جسے تو نے کپڑے سے ڈھانپ دیا ہے اور مجھے اپنے خدا سے شرم آتی ہے جو پردوں کے پیچھے بھی دیکھتا ہے۔"
حاصل کلام
خدا سمیع و بصیر ہے۔ لاکھ پردوں کے پیچھے گناہ کیا جائے اس سے پوشیدہ نہیں۔ اس لیے ہر وقت اس سے ڈرنا چاہیے۔
اس نازک صورتحال سے حضرت یوسف علیہ السلام بہت رنجیدہ ہوئے۔ سر پکڑ کر رہ گئے۔ زلیخا جذبات کی رو میں بے اختیار آپ کے پاؤں چومنے لگی اور کہنے لگی۔
"اتنے سنگدل نہ بنو، وقت اچھا ہے، اسے ضائع نہ کرو۔ میری دلی مراد پوری کرو۔"
حضرت یوسف علیہ السلام رو پڑے اور فرمایا۔
"اے ظالم! مجھ سے ایسی توقع نہ رکھ۔ تجھے اس بت سے تو شرم آتی ہے جسے تو نے کپڑے سے ڈھانپ دیا ہے اور مجھے اپنے خدا سے شرم آتی ہے جو پردوں کے پیچھے بھی دیکھتا ہے۔"
حاصل کلام
خدا سمیع و بصیر ہے۔ لاکھ پردوں کے پیچھے گناہ کیا جائے اس سے پوشیدہ نہیں۔ اس لیے ہر وقت اس سے ڈرنا چاہیے۔
No comments:
Post a Comment