*ایک لازوال داستان*
ابو العاص بعثت سے پہلے ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا
اور کہا :---
میں اپنے لیے آپ کی بڑی بیٹی زینب کا ہاتھ مانگنے آیا ہو۔
میں اپنے لیے آپ کی بڑی بیٹی زینب کا ہاتھ مانگنے آیا ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں ان کی اجازت کے بغیر کچھ
نہیں کر سکتا۔
گھر جا کر رسول اللہ ﷺ نے زینب سے کہا :
تیرے خالہ کے بیٹے نے تیرا نام لیا ہے کیا تم اس پر راضی ہو ؟
گھر جا کر رسول اللہ ﷺ نے زینب سے کہا :
تیرے خالہ کے بیٹے نے تیرا نام لیا ہے کیا تم اس پر راضی ہو ؟
زینب کا چہرہ سرخ ہوا اور مسکرائی- رسول اللہ ﷺ اٹھ کر
باہر تشریف لے گئے اور ابو العاص بن الربیع کا رشتہ زینب کے لیے قبول کیا۔
یہاں سے محبت کی ایک داستان شروع ہوتی ہے۔
ابو العاص سے زینب کا بیٹا "علی" اور
بیٹی"امامۃ" پیدا ہوئے۔
پھر آزمائش شروع ہوجاتی ہے کیونکہ نبی ﷺ پر وحی نازل
ہوئی اور آپ اللہ کے رسول بن گئے،
ابو العاص کہیں سفر میں تھے جب واپس آیا تو بیوی اسلام
قبول کر چکی تھی۔
جب گھر میں داخل ہوا بیوی نے کہا :
میرے پاس تمہارے لیے ایک عظیم خبر ہے۔
میرے پاس تمہارے لیے ایک عظیم خبر ہے۔
یہ سن کر وہ اٹھ کر باہر نکلتا ہے۔
زینب خوفزدہ ہو کر ان کے پیچھے پیچھے باہر نکلتی ہے اور کہتی ہے :
میرے ابو نبی بنائے گئے ہیں اور میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔
زینب خوفزدہ ہو کر ان کے پیچھے پیچھے باہر نکلتی ہے اور کہتی ہے :
میرے ابو نبی بنائے گئے ہیں اور میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔
ابو العاص :
تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ؟
اب دونوں کے درمیان ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے جو کہ عقیدے کا مسئلہ تھا۔
تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ؟
اب دونوں کے درمیان ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے جو کہ عقیدے کا مسئلہ تھا۔
زینب : میں اپنے ابو کو جھٹلا نہیں سکتی، نہ ہی میرے ابو
کبھی جھوٹے تھے وہ تو صادق اور امین ہیں ،
میں اکیلی نہیں ہوں میری ماں اور بہنیں بھی اسلام قبول کر چکی ہیں،
میرا چاچا زاد بھائی ( علی بن ابی طالب ) بھی اسلام قبول کر چکے ہیں، تیرا چاچا زاد ( عثمان بن عفان ) بھی مسلمان ہوچکے ہیں، تیرے دوست ابو بکر بھی اسلام قبول کر چکے ہیں۔
میں اکیلی نہیں ہوں میری ماں اور بہنیں بھی اسلام قبول کر چکی ہیں،
میرا چاچا زاد بھائی ( علی بن ابی طالب ) بھی اسلام قبول کر چکے ہیں، تیرا چاچا زاد ( عثمان بن عفان ) بھی مسلمان ہوچکے ہیں، تیرے دوست ابو بکر بھی اسلام قبول کر چکے ہیں۔
ابو العاص :
مگر میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ کہیں کہ اپنی قوم کو چھوڑ دیا، اپنے آباو اجداد کو جھٹلایا۔ تیرے ابو کو ملامت نہیں کرتا ہوں۔
مگر میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ کہیں کہ اپنی قوم کو چھوڑ دیا، اپنے آباو اجداد کو جھٹلایا۔ تیرے ابو کو ملامت نہیں کرتا ہوں۔
بہر حال ابو العاص نے اسلام قبول نہیں کیا یہاں تک کہ
ہجرت کا زمانہ آگیا اور زینب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہا :
اے اللہ کے رسول کیا آپ مجھے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہنے کی اجازت دیں گے؟
اے اللہ کے رسول کیا آپ مجھے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہنے کی اجازت دیں گے؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے شوہر اور بچوں کے پاس ہی
رہو۔
وقت گزرتا گیا اور دونوں اپنے بچوں کے ساتھ مکہ میں ہی
رہے یہاں تک کہ غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا اور ابو العاص قریش کی فوج کے ساتھ اپنے
سسر کے خلاف لڑنے کے لیے روانہ ہوا۔
زینب خوفزدہ تھی کہ اس کا شوہر اس کے ابا کے خلاف جنگ
لڑے گا اس لیے روتی ہوئی کہتی تھی :
اے اللہ میں ایسے دن سے ڈرتی ہوں کہ میرے بچے یتیم ہوں یا اپنے ابو کو کھودو۔
اے اللہ میں ایسے دن سے ڈرتی ہوں کہ میرے بچے یتیم ہوں یا اپنے ابو کو کھودو۔
ابو العاص بن الربیع رسول اللہ ﷺ کے خلاف بدر میں لڑے ،
جنگ ختم ہوئی تو داماد سسر کے قید میں تھا، خبر مکہ پہنچ گئی کہ ابو العاص جنگی
قیدی بنائے گئے۔
زینب پوچھتی رہی کہ میرے والد کا کیا بنا ؟
لوگوں نے بتا یا کہ مسلمان تو جنگ جیت گئے اس پر زینب نے سجدہ شکر ادا کیا۔
لوگوں نے بتا یا کہ مسلمان تو جنگ جیت گئے اس پر زینب نے سجدہ شکر ادا کیا۔
پھر پوچھا :
میرے شوہر کو کیا ہوا ؟
لوگوں نے کہا :
اس کو اس کے سسر نے جنگی قیدی بنایا۔
میرے شوہر کو کیا ہوا ؟
لوگوں نے کہا :
اس کو اس کے سسر نے جنگی قیدی بنایا۔
زینب نے کہا :
میں اپنے شوہر کا فدیہ (دیت) بھیج دوں گی۔
شوہر کا فدیہ دینے کے لیے زینب کے پاس کوئی قیمتی چیز نہیں تھی اس لیے اپنی والدہ ام المومنین خدیجہ کا ہار اپنے گلے سے اتار دیا اور ابو العاص بن الربیع کے بھائی کو دے کر اپنے والد ﷺ کی خدمت میں روانہ کیا۔
میں اپنے شوہر کا فدیہ (دیت) بھیج دوں گی۔
شوہر کا فدیہ دینے کے لیے زینب کے پاس کوئی قیمتی چیز نہیں تھی اس لیے اپنی والدہ ام المومنین خدیجہ کا ہار اپنے گلے سے اتار دیا اور ابو العاص بن الربیع کے بھائی کو دے کر اپنے والد ﷺ کی خدمت میں روانہ کیا۔
رسول اللہ ﷺ ایک ایک قیدی کا فدیہ وصول کر کے ان کو آزاد
کر رہے تھے اچانک اپنی زوجہ خدیجہ کے ہار پر نظر پڑی توچھا :
یہ کس کا فدیہ ہے ؟
یہ کس کا فدیہ ہے ؟
لوگوں نے کہا :
یہ ابو العاص بن الربیع کا فدیہ ہے۔
یہ ابو العاص بن الربیع کا فدیہ ہے۔
یہ سن کر رسول اللہ ﷺ روپڑے اور فرمایا :
یہ تو خدیجہ کا ہار ہے،
پھر کھڑے ہوگئے اور فرمایا :
اے لوگو یہ شخص برا داماد نہیں کیا میں اس کو رہا کروں ؟ اگر تم اجازت دیتے ہو میں اس کا ہار بھی اس کو واپس کردوں؟
یہ تو خدیجہ کا ہار ہے،
پھر کھڑے ہوگئے اور فرمایا :
اے لوگو یہ شخص برا داماد نہیں کیا میں اس کو رہا کروں ؟ اگر تم اجازت دیتے ہو میں اس کا ہار بھی اس کو واپس کردوں؟
لوگوں نے کہا :
کیوں نہیں اے اللہ کے رسول۔
کیوں نہیں اے اللہ کے رسول۔
رسول اللہ ﷺ نے ہار ابو لعاص کو تھا دیا اور فرمایا :
زینب سے کہو کہ خدیجہ کے ہار کا خیال رکھے۔
پھر فرمایا :
اے ابو العاص کیا میں تم سے تنہائی میں کوئی بات کر سکتا ہوں؟
اے ابو العاص کیا میں تم سے تنہائی میں کوئی بات کر سکتا ہوں؟
ان کو ایک طرف لے جا کر فرمایا :
اے ابو العاص اللہ نے مجھے کافر شوہر اور مسلمان بیوی کے درمیان جدائی کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے میری بیٹی کو میرے حوالے کرو گے؟
اے ابو العاص اللہ نے مجھے کافر شوہر اور مسلمان بیوی کے درمیان جدائی کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے میری بیٹی کو میرے حوالے کرو گے؟
ابو العاص نے کہا: جی ہاں۔
دوسر طرف زینب شوہر کے استقبال کے لیے گھر سے نکل کر مکہ
کے داخلی راستے پر ان کی راہ دیکھ رہی تھی۔
جب ابو العاص کی نظر اپنی بیوی پر پڑی فورا کہا :
میں جا رہا ہو۔
میں جا رہا ہو۔
زینب نے کہا : کہاں ؟
ابو العاص : میں نہیں تم اپنے باپ کے پاس جانے والی ہو ۔
زینب : کیوں؟
ابو العاص : میری اور تمہاری جدائی کے لیے۔
جاو اپنے باپ کے پاس جاو۔
جاو اپنے باپ کے پاس جاو۔
زینب : کیا تم میرے ساتھ جاو گے اور اسلام قبول کرو گے؟
ابو العاص : نہیں۔
زینب اپنے بیٹے اور بیٹی کو لے کر مدینہ منورہ چلی گئی۔
جہاں 6 سال کے دوران کئی رشتے آئے مگر زینب نے قبول نہیں اور اسی امید سے انتظار
کرنے لگی کہ شوہر شاید اسلام قبول کر کے آئے گا۔
6 سال
کے بعد ابو العاص ایک قافلے کے ساتھ مکہ سے شام کے سفر پر روانہ ہوا،
سفر کے دوران راستے میں صحابہ کی ایک جماعت نے ان کو گرفتار کر کے ساتھ مدینہ لے گئے،
مدینہ جاتے ہوئے زینب اور ان کے گھر کے بارے میں پوچھا ، فجر کی آذان کے وقت زینب کے دروازے پر پہنچا ۔
سفر کے دوران راستے میں صحابہ کی ایک جماعت نے ان کو گرفتار کر کے ساتھ مدینہ لے گئے،
مدینہ جاتے ہوئے زینب اور ان کے گھر کے بارے میں پوچھا ، فجر کی آذان کے وقت زینب کے دروازے پر پہنچا ۔
زینب نے ان پر نظر پڑتے ہی پوچھا کیا اسلام قبول کر چکے
ہو ؟
ابو العاص : نہیں
ابو العاص : نہیں
زینب : ڈرنے کی ضرورت نہیں خالہ زاد کو خوش آمدید، علی
اور امامہ کے باپ کو خوش آمدید۔
رسول اللہ ﷺ نے فجر کی نماز پڑھائی تو مسجد کے آخری حصے
سے آواز آئی کہ :
میں ابو العاص بن الربیع کو پناہ دیتی ہو۔
میں ابو العاص بن الربیع کو پناہ دیتی ہو۔
نبی ﷺ نے فرمایا :
کیا تم لوگوں نے سن لیا جو میں نے سنا ہے؟
کیا تم لوگوں نے سن لیا جو میں نے سنا ہے؟
سب نے کہا :
جی ہاں اے اللہ کے رسولﷺ۔
جی ہاں اے اللہ کے رسولﷺ۔
زینب نے کہا :
اے اللہ کے رسول ابو العاص میرا خالہ زاد ہے اور میرے بچوں کا باپ ہے میں ان کو پناہ دیتی ہو۔
اے اللہ کے رسول ابو العاص میرا خالہ زاد ہے اور میرے بچوں کا باپ ہے میں ان کو پناہ دیتی ہو۔
نبی ﷺ نے قبول کر لی اور فرمایا :
اے لوگو یہ برا داماد نہیں،
اس شخص نے مجھ سے جو بھی بات کی سچ بولا اور جو وعدہ کیا وہ نبھایا۔
اگر تم چاہتے ہو کہ اس کو اس کا مال واپس کر کے اس کو چھوڑ دیا جائے یہ اپنے شہر چلا جائے یہ مجھے پسند ہے۔
اگر نہیں چاہتے ہو تو یہ تمہارا حق ہے اور تمہاری مرضی ہے میں تمہیں ملامت نہیں کروں گا۔
اے لوگو یہ برا داماد نہیں،
اس شخص نے مجھ سے جو بھی بات کی سچ بولا اور جو وعدہ کیا وہ نبھایا۔
اگر تم چاہتے ہو کہ اس کو اس کا مال واپس کر کے اس کو چھوڑ دیا جائے یہ اپنے شہر چلا جائے یہ مجھے پسند ہے۔
اگر نہیں چاہتے ہو تو یہ تمہارا حق ہے اور تمہاری مرضی ہے میں تمہیں ملامت نہیں کروں گا۔
لوگوں نے کہا :
ہم اس کا مال اس کو واپس کر کے اس کو جانے دینا چاہتے ہیں۔
ہم اس کا مال اس کو واپس کر کے اس کو جانے دینا چاہتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اے زینب تم نے جس کو پناہ دی ہم بھی اس کو پناہ دیتے ہیں۔
اے زینب تم نے جس کو پناہ دی ہم بھی اس کو پناہ دیتے ہیں۔
اس پر ابو العاص زینب کے ساتھ ان کے گھر چلے گئے اور
رسول اللہ ﷺ نے زینب سے فرمایا :
اے زینب ان کا اکرام کرو یہ تیرا خالہ زاد ہے اور بچوں کا باپ ہے مگر یہ تمہارے قریب نہ آئے کیونکہ یہ تمہارے لیے حلال نہیں۔
اے زینب ان کا اکرام کرو یہ تیرا خالہ زاد ہے اور بچوں کا باپ ہے مگر یہ تمہارے قریب نہ آئے کیونکہ یہ تمہارے لیے حلال نہیں۔
زینب نے کہا :
جی ہاں اے اللہ کے رسول۔
جی ہاں اے اللہ کے رسول۔
گھر جا کر ابو العاص بن ربیع سے کہا :
اے ابو العاص جدائی نے تجھے تھکا دیا ہے کیا اسلام قبول کر کے ہمارے ساتھ رہو گے۔
اے ابو العاص جدائی نے تجھے تھکا دیا ہے کیا اسلام قبول کر کے ہمارے ساتھ رہو گے۔
ابو العاص : نہیں۔
اپنا مال لے کر مکہ روانہ ہو گئے جبکہ مکہ پہنچے تو کہا :
اے لوگو :
یہ لو اپنے اپنے مال،
کیا کسی کا کوئی مال میرے ذمے ہے ؟
اے لوگو :
یہ لو اپنے اپنے مال،
کیا کسی کا کوئی مال میرے ذمے ہے ؟
لوگوں نے کہا :
اللہ تمہیں بدلہ دے تم نے بہتر وعدہ نبھایا۔
ابو العاص نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
اللہ تمہیں بدلہ دے تم نے بہتر وعدہ نبھایا۔
ابو العاص نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
اس کے بعد مدینہ روانہ ہوئے اور جب مدینہ پہنچے تو پھر
فجر کا وقت تھا ۔
سیدھا نبی ﷺ کے پاس گئے اور کہا : کل آپ نے مجھے پناہ دی تھی اور آج میں یہ کہنے آیا ہو کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔
سیدھا نبی ﷺ کے پاس گئے اور کہا : کل آپ نے مجھے پناہ دی تھی اور آج میں یہ کہنے آیا ہو کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔
ابو العاص نے کہا :
اے اللہ کے رسول کیا زینب کے ساتھ رجوع کی اجازت دیتے ہیں؟
اے اللہ کے رسول کیا زینب کے ساتھ رجوع کی اجازت دیتے ہیں؟
نبی ﷺ ابوالعاص کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :
آو میرے ساتھ،
زینب کے دروازے پر لے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا اور زینب سے فرمایا :
یہ تمہارا خالہ زاد واپس آیا ہے تم سے رجوع کی اجازت مانگ رہا ہے کیا تمہیں قبول ہے؟
زینب کا چہرہ سرخ ہوا اور مسکرائی۔
آو میرے ساتھ،
زینب کے دروازے پر لے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا اور زینب سے فرمایا :
یہ تمہارا خالہ زاد واپس آیا ہے تم سے رجوع کی اجازت مانگ رہا ہے کیا تمہیں قبول ہے؟
زینب کا چہرہ سرخ ہوا اور مسکرائی۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس واقعے کے صرف ایک سال بعد زینب کا
انتقال ہوا جس پر ابو العاص زارو قطار رونے لگے حتی کہ لوگوں کے سامنے اور رسول
اللہ ﷺ ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر تسلی دیتے تھے، جواب میں ابو العاص کہتے :
اے اللہ کے رسول
اللہ کی قسم زینب کے بغیر میں دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا اور ایک سال کے بعد ہی ابو العاص بھی انتقال کر گئے۔
اے اللہ کے رسول
اللہ کی قسم زینب کے بغیر میں دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا اور ایک سال کے بعد ہی ابو العاص بھی انتقال کر گئے۔
راوی کا شکریہ
No comments:
Post a Comment