تم جو میرے پاس نہیں
ایک اُمید ہے لوٹو گے ایک دن تم لوگ
اک اسی آس پہ خود کو سنبھال رکھا ہے
کوئی غم آئے اسے دل پہ روک لیتے ہیں
پر کسی طور بھی ہم خود کو
بکھرنے نہیں دیتے
ہماری چوکھٹوں پہ دیکھتے ہو دیپ جو تم
یہ انتظار ہے چراغ نہیں
اور ان میں حسرتوں کا ایندھن ہے
جو شام و سحر
ہمارے ساتھ جلا کرتا ہے
کچھ نہیں چاہیے گاڑی نہ کوئی بنگلہ ہمیں
تم نے جو خواب دکھائے تھے ہمیں جاتے ہوئے
کہ تمہارے کسی پردیس چلے جانے سے
گھر کا آنگن حسین خوشیوں سے مہک جائے گا
ٹھیک ہی کہتے تھے تم
تم نے ڈالر ہی انتے بھیجے کہ
جو بھی چاہیں خرید لیتے ہیں
جو بھی چاہیں خرید سکتے ہیں
آ کہ دیکھو تو سبھی کچھ ہے ہمارے گھر میں
ہر نئے ڈھنگ کا الیکٹرونکس
ہر نئے رنگ کی آسائشیں ہیں
گاڑیاں ، زیورات ، بینک بیلنس
کونسی چیز دستیاب نہیں؟
جانِ من تم جو میرے پاس نہیں
سانپ بن کر یہ ہمیں روز ڈسا کرتی ہیں
تم نہیں تو چاند رات کو بھی
گھر میں ویرانیاں ہی رقص کیا کرتی ہیں
***
No comments:
Post a Comment